Archive for December 2018
سر پلیز....
مجهے ایک بات بتائیے...
وہ میرے سامنے میز کی دوسری طرف بیٹهہ کر بڑے اعتماد سے بولی...
جو عورت پچهلے پانچ سال سے آپ کے ساتهہ ہے اور آپ کے دو بچوں کی ماں بهی ہے اس میں اچانک ایسی کیا برائی کیا خرابی یا کمی واقع ہو گئی کہ آپ اس کی ساری محبتیں
خدمتیں اور قربانیاں بهلا کر میری طرف مائل ہو گئے؟...
ایسا کچهہ بهی نہیں بات صرف اتنی سی ہے کہ مجهے تم سے محبت ہے....
اور آپ نے اس محبت کو ملکیت سمجهہ لیا مجهے بتاے بغیر مجهہ سے پوچهے بغیر...
پوچهہ تو رہا ہوں تم مان جاو میں اسے چهوڑ دوں گا....
یعنی آپ کی خوشی کی خاطر اپنے جیسی عورت کا گهر تباہ کر دوں جو بالکل بے قصور ہے یہ جانتی بهی نہیں کہ آپ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں. مجهہ میں تو اتنی ہمت نہیں سر....
وہ حتمی فیصلہ سنانے لگی....
میں بے حد پریشان ہو گیا....
سمجهہ میں نہیں آ رہا تها کہ اسے کیا کہوں مجهے خاموش دیکهہ کر بولی....
کیا سوچنے لگے سر؟...
سوچ رہا ہوں رب کو منانا کتنا آسان ہے لیکن اس کے بندوں کو منانا کتنا مشکل....
پهر تو آپ جانتے ہیں کہ رب نارا ض بهی ہو جاتا ہے....
میں خاموش رہا تو میرے چہرے پر نظریں جما کر بڑے سکون سے بولی....
میرے رب کو وہ انسان سب سے زیادہ نا پسند ہے جو میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالے یا ان کے بیچ نفرت پیدا کر کے ان کی علیحدگی کا سبب بنے کیا آپ چاہتے ہیں سر کہ میں خدا کے ان ناپسندیدہ بندوں میں شامل ہو جاوں؟...
میں غور سے اسے دیکهنے لگا....
یہ کیسی محبت ہے آپ کی جو مجهے میرے رب کے حضور شرمندہ کرنا چاہتی ہے؟...
میرے پاس اس کی کسی بات کا معقول جواب نہیں تها میں بس اسے حاصل کرنا چاہتا تها لیکن وہ کسی صورت راضی نہ تهی....
کچهہ عرصہ اسی کشمکش میں گزرا پهر لاسٹ سمسٹر ہوئے اور وہ چلی گئی جانے سے پہلے میرے پاس آئی اور بولی....
سوری سر میں نے آپ کا دل دکهایا محبت میں ہم کبهی کبهی اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ قریب کے رشتوں کی کوئی اہمیت ہی باقی نہیں رہتی لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ہم غلطی پر تهے آپ کے ساتهہ بهی ایسا ہی ہو گا میں چلی جاوں گی تو آپ بهی نارمل ہو جائیں گے....
اس کے جانے کے بعد کافی عرصہ بے چینی میں گزرا پهر میں نے اپنی پوسٹنگ دوسرے شہر کروا لی ماحول بدلا زندگی کی مصروفیات بڑهیں تو آہستہ آہستہ اس کی یاد میں کمی آنے لگی آخر وہ وقت بهی آیا کہ وہ ذہن کے پردے سے بالکل محو ہو گئی....
کافی عرصے بعد ایک تقریب میں نظر آئی اسے دیکهہ کر ماضی یاد آگیا میں اپنی احمقانہ محبت کی داستان اسے سنا کر زور زور سے ہنستا رہا اپنی بیوقوفیوں کے قصے دلچسپ انداز میں سنا کر خوش ہوتا رہا اور وہ خاموشی سے سنتی رہی....
پهر مین نے پوچها سناو گهر بار کیسا ہے؟...
تو زور سے ہنس کر بولی....
گهر بار کیسا سر اکیلی بڑے مزے میں ہوں....
مطلب؟...
میں حیران ہوا شادی نہیں کی تم نے؟...
میں نے سر سری انداز میں پوچها....
تو پهیکی سی مسکراہٹ لئے بولی....
کیا کرتی سر آپ کے بعد کوئی اور اچها ہی نہیں لگا....
چائے کا کپ میرے ہاتهہ میں لرزنے لگا احساس ندامت نے قوت گویائی چهین لی ماضی آہستہ آہستہ زخم کریدنے لگا....
جسے بهولے ہوئے مجهے زمانہ گزر گیا وہ آج بهی میری یاد کے ساتھ رہ رہی تهی....
الفاظ حلق میں اٹکنے لگے خود کو سنبهال کر بڑی مشکل سے کہہ پایا....
مگر تم نے تو کبهی....
میری بات کاٹ کر بڑے کرب سے بولی....
جنہیں اللہ کی رضا کی خاطر چهوڑتے ہیں انہیں جزبوں کا احساس نہیں دلایا جاتا بس لاتعلقی کا گمان ہی کافی ہوتا ہے....
چائے چهلک کر میرے کپڑے داغدار کر گئی....
😢😢😢
مجهے ایک بات بتائیے...
وہ میرے سامنے میز کی دوسری طرف بیٹهہ کر بڑے اعتماد سے بولی...
جو عورت پچهلے پانچ سال سے آپ کے ساتهہ ہے اور آپ کے دو بچوں کی ماں بهی ہے اس میں اچانک ایسی کیا برائی کیا خرابی یا کمی واقع ہو گئی کہ آپ اس کی ساری محبتیں
خدمتیں اور قربانیاں بهلا کر میری طرف مائل ہو گئے؟...
ایسا کچهہ بهی نہیں بات صرف اتنی سی ہے کہ مجهے تم سے محبت ہے....
اور آپ نے اس محبت کو ملکیت سمجهہ لیا مجهے بتاے بغیر مجهہ سے پوچهے بغیر...
پوچهہ تو رہا ہوں تم مان جاو میں اسے چهوڑ دوں گا....
یعنی آپ کی خوشی کی خاطر اپنے جیسی عورت کا گهر تباہ کر دوں جو بالکل بے قصور ہے یہ جانتی بهی نہیں کہ آپ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں. مجهہ میں تو اتنی ہمت نہیں سر....
وہ حتمی فیصلہ سنانے لگی....
میں بے حد پریشان ہو گیا....
سمجهہ میں نہیں آ رہا تها کہ اسے کیا کہوں مجهے خاموش دیکهہ کر بولی....
کیا سوچنے لگے سر؟...
سوچ رہا ہوں رب کو منانا کتنا آسان ہے لیکن اس کے بندوں کو منانا کتنا مشکل....
پهر تو آپ جانتے ہیں کہ رب نارا ض بهی ہو جاتا ہے....
میں خاموش رہا تو میرے چہرے پر نظریں جما کر بڑے سکون سے بولی....
میرے رب کو وہ انسان سب سے زیادہ نا پسند ہے جو میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالے یا ان کے بیچ نفرت پیدا کر کے ان کی علیحدگی کا سبب بنے کیا آپ چاہتے ہیں سر کہ میں خدا کے ان ناپسندیدہ بندوں میں شامل ہو جاوں؟...
میں غور سے اسے دیکهنے لگا....
یہ کیسی محبت ہے آپ کی جو مجهے میرے رب کے حضور شرمندہ کرنا چاہتی ہے؟...
میرے پاس اس کی کسی بات کا معقول جواب نہیں تها میں بس اسے حاصل کرنا چاہتا تها لیکن وہ کسی صورت راضی نہ تهی....
کچهہ عرصہ اسی کشمکش میں گزرا پهر لاسٹ سمسٹر ہوئے اور وہ چلی گئی جانے سے پہلے میرے پاس آئی اور بولی....
سوری سر میں نے آپ کا دل دکهایا محبت میں ہم کبهی کبهی اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ قریب کے رشتوں کی کوئی اہمیت ہی باقی نہیں رہتی لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ہم غلطی پر تهے آپ کے ساتهہ بهی ایسا ہی ہو گا میں چلی جاوں گی تو آپ بهی نارمل ہو جائیں گے....
اس کے جانے کے بعد کافی عرصہ بے چینی میں گزرا پهر میں نے اپنی پوسٹنگ دوسرے شہر کروا لی ماحول بدلا زندگی کی مصروفیات بڑهیں تو آہستہ آہستہ اس کی یاد میں کمی آنے لگی آخر وہ وقت بهی آیا کہ وہ ذہن کے پردے سے بالکل محو ہو گئی....
کافی عرصے بعد ایک تقریب میں نظر آئی اسے دیکهہ کر ماضی یاد آگیا میں اپنی احمقانہ محبت کی داستان اسے سنا کر زور زور سے ہنستا رہا اپنی بیوقوفیوں کے قصے دلچسپ انداز میں سنا کر خوش ہوتا رہا اور وہ خاموشی سے سنتی رہی....
پهر مین نے پوچها سناو گهر بار کیسا ہے؟...
تو زور سے ہنس کر بولی....
گهر بار کیسا سر اکیلی بڑے مزے میں ہوں....
مطلب؟...
میں حیران ہوا شادی نہیں کی تم نے؟...
میں نے سر سری انداز میں پوچها....
تو پهیکی سی مسکراہٹ لئے بولی....
کیا کرتی سر آپ کے بعد کوئی اور اچها ہی نہیں لگا....
چائے کا کپ میرے ہاتهہ میں لرزنے لگا احساس ندامت نے قوت گویائی چهین لی ماضی آہستہ آہستہ زخم کریدنے لگا....
جسے بهولے ہوئے مجهے زمانہ گزر گیا وہ آج بهی میری یاد کے ساتھ رہ رہی تهی....
الفاظ حلق میں اٹکنے لگے خود کو سنبهال کر بڑی مشکل سے کہہ پایا....
مگر تم نے تو کبهی....
میری بات کاٹ کر بڑے کرب سے بولی....
جنہیں اللہ کی رضا کی خاطر چهوڑتے ہیں انہیں جزبوں کا احساس نہیں دلایا جاتا بس لاتعلقی کا گمان ہی کافی ہوتا ہے....
چائے چهلک کر میرے کپڑے داغدار کر گئی....
😢😢😢
Love story
صرف ہم ہی ہیں__، اُس کے دِل مِیں..
لے ڈوبی ہمیں___، یہ غلط فہمییاں.. ! 😞
ہم نے نہ قطرہ دیکھا، نہ کبھی دریا پہ غور کیا❤❤
بس جہاں تیری جھلک نظر آئی وہیں ڈوب گئے
۔ ۔ ۔ ۔ *بے پناہ عشق* ۔ ۔ ۔
دل میں جب __جگہ نہیں بچتی....
درد آنکھوں میں پھیل جاتا ہے .....:
۔ ۔ ۔ *بے پناہ عشق* ۔ ۔ ۔ ۔
آج کھا قسم اپنی خوبصورت آنکھوں کی۔۔۔
کیا تجھے ذرا بھی عشق نہیں ھے ھم سے۔۔۔❤
ہم اتنے حسین تو نہیں کہ لوگ ہم پےفدا ہو جائیں,,
مگر جس کو آنکھ اٹھا کے دیکھ لیں اسے الجھن میں ڈال دیتے ہیں,
اتنی وفاداری نہ کر کسی سے یوں مدہوش ہوکر♥️
یہ لوگ اک غلطی پہ ہزاروں وفائیں بھول جاتے ہیں💔
Poetry شاعری
سخاوت کی سنہری مثال
بھائی مجھے تھوڑا سا شہد دے دیں ..... مجھے اشد ضرورت ہے، مجھے ایک بیماری ہے ..... اس کا علاج شہد سے ممکن ہے۔
افسوس! میرے پاس اس وقت شہد نہیں ہے ..... ویسے شہد آپ کو مل سکتا ہے ..... لیکن آپ کو کچھ دور جانا پڑےگا، ملک شام سے ایک بڑے تاجر کا تجارتی قافلہ آرہا ہے ..... وہ تاجر بہت اچھے انسان ہیں ..... مجھے امید ہے، وہ آپ کی ضرورت کے لیے شہد ضرور دے دیں گے۔
ضرورت مند نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شہر سے باہر نکل آیا تاکہ قافلہ وہاں پہنچے تو تاجر سے شہد کے لیے درخواست کر سکے۔
آخر قافلہ آتا نظر آیا۔ وہ فوراً اٹھا اور اس کے نزدیک پہنچ گیا۔ اس قافلے کے امیر کے بارے میں پوچھا۔ لوگوں نے ایک خوبصورت اور بارونق چہرے والے شخص کی طرف اشارہ کر دیا۔ اب وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا:
حضرت! میں ایک بیماری میں مبتلا ہوں۔ اس کے علاج کے لیے مجھے تھوڑے سے شہد کی ضرورت ہے۔
انھوں نے فوراً اپنے غلام سے فرمایا:
جس اونٹ پر شہد کے دو مٹکے لدے ہیں، ان میں سے ایک مٹکا اس بھائی کو دے دیں۔
غلام نے یہ سن کر کہا:
آقا! اگر ایک مٹکا اسے دے دیا تو اونٹ پر وزن برابر نہیں رہ جائےگا۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا: تب پھر دونوں مٹکے انھیں دے دیں۔
یہ سن کر غلام گھبرا گیا اور بولا:
آقا! یہ اتنا وزن کیسے اٹھائے گا۔ اس پر آقا نے کہا: تو پھر اونٹ بھی اسے دے دو۔ غلام فوراً دوڑا اور وہ اونٹ مٹکوں کے ساتھ اس کے حوالے کر دیا۔ وہ ضرورت مند ان کا شکریہ ادا کر کے اونٹ کی رسی تھام کر چلا گیا۔
وہ حیران بھی تھا اور دل سے بے تحاشہ دعائیں بھی دے رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا، یہ شخص کس قدر سخی ہے، میں نے اس سے تھوڑا سا شہد مانگا۔ اس نے مجھے دو مٹکے دے دیے۔ مٹکے ہی نہیں، وہ اونٹ بھی دے دیا جس پر مٹکے لدے ہوئے تھے۔
اِدھر غلام اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آقا نے غلام سے کہا:
جب میں نے تم سے کہا کہ اسے ایک مٹکا دے دو تو تم نہیں گئے، دوسرا مٹکا دینے کے لیے کہا تو بھی تم نہیں گئے، پھر جب میں نے یہ کہا کہ اونٹ بھی اسے دے دو تو تم دوڑتے ہوئے چلے گئے۔ اس کی کیا وجہ تھی؟
غلام نے جواب دیا:
آقا! جب میں نے یہ کہا کہ ایک پورا مٹکا دینے سے اونٹ پر وزن برابر نہیں رہے گا تو آپ نے دوسرا مٹکا بھی دینے کا حکم فرمایا، جب میں نے یہ کہا کہ وہ دونوں مٹکے کیسے اٹھائے گا تو آپ نے فرمایا اونٹ بھی اسے دے دو ۔ اب میں ڈرا کہ اگر اب میں نے کوئی اعتراض کیا تو آپ مجھے بھی اس کے ساتھ جانے کا حکم فرما دیں گے۔ اس لیے میں نے دوڑ لگا دی۔
اس پر آقا نے کہا:
اگر تم اس کے ساتھ چلے جاتے تو اس غلامی سے آزاد ہو جاتے ۔ یہ تو اور اچھا ہوتا ۔
جواب میں غلام نے کہا:
آقا! میں آزادی نہیں چاہتا، اس لیے کہ آپ کو تو مجھ جیسے سیکڑوں غلام مل جائیں گے، لیکن مجھے آپ جیسا آقا نہیں ملےگا۔ میں آپ کی غلامی میں رہنے کو آزادی سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔
آپ کو معلوم ہے یہ آقا کون تھے؟
یہ حضرت عثمان غنیؓ تھے..!!
سخاوت کی سنہری مثال
بیٹی جب شادی کے اسٹیج سے ...
سسرال جاتی ہے تب .....
پرائی نہیں لگتی.
مگر ......
جب وہ میکے آ کر ہاتھ منہ دھونے کے بعد سامنے ٹنگے ٹاول کے بجائے اپنے بیگ سے مختصر رومال سے منہ پوچھتي
ہے،
تب وہ پرائی لگتی ہے.
جب وہ باورچی خانے کے دروازے پر نامعلوم سی کھڑی ہو جاتی ہے،
تب وہ پرائی لگتی ہے.
جب وہ پانی کے گلاس کے لئے ادھر ادھر آنکھیں گھماتي ہے،
تب وہ پرائی لگتی ہے.
جب وہ پوچھتی ہے واشنگ مشین چلاو کیا
تب وہ پرائی لگتی ہے.
جب میز پر کھانا لگنے کے بعد بھی برتن کھول کر نہیں دیکھتی
تو وہ پرائی لگتی ہے.
جب پیسے گنتے وقت اپنی نظریں چراتي ہے
تب وہ پرائی لگتی ہے.
جب بات بات پر غیر ضروری قہقہے لگا کر خوش ہونے کا ڈرامہ کرتی ہے
تب وہ پرائی لگتی ہے .....
اور لوٹتے وقت
'اب کب آئے گی' کے جواب میں 'دیکھو کب آنا ہوتا ہے' یہ جواب دیتی ہے،
تب ہمیشہ کے لئے پرائی ہو گئی ایسے لگتی ہے.
لیکن گاڑی میں بیٹھنے کے بعد
جب وہ چپکے سے آپ آنکھیں چھپا کے خشک کرنے والی کی کوشش کرتی.
تو وہ پرايا پن ایک جھٹکے میں بہہ جاتا
تب وہ پرائی سی لگتی
نہیں چاہئے حصہ بھیا
میرا مايكا سجائے رکھنا
کچھ نہ دینا مجھے
صرف محبت برقرار رکھنے
پاپا کے اس گھر میں
میری یاد بسائے رکھنا
بچوں کے ذہنوں میں
میرا مان برقرار رکھنے
بیٹی ہوں ہمیشہ اس کے گھر کی
یہ اعزاز سجايے رکھنا.
بیٹی سے ماں کا سفر......!!!!
بیٹی سے ماں کا سفر
بے فكري سے فکر کا سفر
رونے سے خاموش کرانے کا سفر
غصے سے تحمل کا سفر
پہلے جو آنچل میں چھپ جایا کرتی تھی.
آج کسی کو آنچل میں چھپا لیتی ہیں.
پہلے جو انگلی پہ گرم لگنے سے
گھر کو سر پہ اٹھایا کرتی تھی.
آج ہاتھ جل جانے پر بھی کھانا بنایا کرتی ہیں.
پہلے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پہ رو جایا کرتی تھی
آج بو بڑی بڑی باتوں کو ذہن میں چھپایا کرتی ہیں.
پہلے بھائی ،،
دوستوں سے لڑ لیا کرتی تھی.
آج ان سے بات کرنے کو بھی ترس جاتی ہیں.
ماں، ماں کہہ کر پورے گھر میں کھل کرتی تھی.
آج ماں سن کے آہستہ سے مسکرایا کرتی ہیں.
10 بجے اٹھنے پر بھی جلدی اٹھ جانا ہوتا تھا.
آج 7 بجے اٹھنے پر بھی لیٹ ہو جایا کرتی ہیں.
اپنے شوق پورے کرتے کرتے ہی سال گزر جاتا تھا.
آج خود کے لئے ایک کپڑا لینے کو ترس جایا کرتی ہے.
سارا دن مفت ہوکے بھی بزی بتایا کرتی تھی.
اب پورے دن کام کرکے بھی کام چورکہلایا کرتی ہیں.
ایک امتحان کے لئے پورے سال پڑھا کرتی تھی.
اب ہر روز بغیر تیاری کے امتحان دیا کرتی ہیں.
نہ جانے کب کسی کی بیٹی
کسی کی ماں بن گئی.
کب بیٹی ماں کے سفر میں
تبدیل ہو گئی .....
بیٹی جب سسرال جاتی ہے۔
میں ﻧﮯ ﮔﻮﺭﮐﻦ ﺑﺎﺑﺎ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ:
ﺑﺎﺑﺎ ﺟﯽ ﮔﻨﺎﮨﮕﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻗﺒﺮﻭﮞﮐﺎ ﺑﮭﯽﮐﭽﮫ ﺍﺣﻮﺍﻝ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ۔۔۔
ﺑﺎﺑﺎﺟﯽ ﺍﻓﺴﺮﺩﮦ ﻟﮩﺠﮯﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﮯ:
*اب ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﮮ ﺑﮩﺖ ﻣﺸﻘﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﯽ ہے*
*ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﻣﭩﯽ ﺳﺨﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﺘﮭﺮ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﺎﻭﭦ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔۔۔*
ﺁﺟﮑﻞ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﯽ کھدﺍﺋﯽ ﮐﮯﺩﻭﺭﺍﻥ
ﺳﺎﻧﭗ ﺑﭽﮭﻮ ﮐﺎ ﻧﮑﻞ ﺁﻧﺎ ﻋﺎﻡ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﻮ ﮔﺊ ﮨﮯ۔۔۔
ﮐﺌﯽ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﯽ کھدﺍﺋﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﯽ ﻭﺣﺸﺖ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺒﺮﺍﭦ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔۔۔
ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻗﺒﺮﮐﯽ کھدﺍﺋﯽ ﻧﻨﮕﮯ ﭘﺎﻭﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔۔۔۔
ﮐﺌﯽ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﯽ کھدﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﺮ ﺟﻠﻨﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯﺍﭘﻨﯽ زﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻗﺒﺮﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻗﺒﺮ ﺳﮯ ﺩﮬﻮﺍﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭﺁﮒ ﮐﮯﺷﻌﻠﮯ ﺑﮭﯽ۔۔۔
ﮐﺊ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺁﮒ ﺟﻠﺘﯽ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﭼﯿﺦﻭﭘﮑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺳﻦ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ۔۔۔
ﯾﮧ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﺎﺑﺎﺟﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺳﻮﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﺼﻮﺭ ﻣﯿﮟ،
*ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺒﺮﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻧﺎﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﺒﺮ ﺳﮯ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻧﮑﻞﮐﺮ ﮔﻮﺭﮐﻦ ﮐﺎ ﻭﺟﻮﺩ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ ﯾﺎ ﮔﻮﺭﮐﻦ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﺟﻼ ﮈﺍﻟﮯﮔﯽ؟؟؟*
*ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﺧﺒﺮ ﻗﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮ ﮐﮧ ﻧﮧ ﮨﻮ؟؟؟* 🙁🙁
۔۔۔
ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ، ﺁﭘﮑﯽ ﻓﺎﻧﯽ زﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮞﻋﺮﺽ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔۔۔
*ﻗﺒﺮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻭﮦ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﮔﮭﺮ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ صوﺭ ﮐﮯ ﭘﮭﻮﻧﮑﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺗﮏ ﺭﮨﻨﺎ ﻣﻘﺪﺭ ﭨﮩﺮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ۔۔۔*
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻮﮦ ﻟﯿﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﺎﺭﺿﯽ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻓﺮﺍﻣﻮﺵ ﮐﺮﮐﮯ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ
ﻣﯿﮟ
ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﺭہاﺋﺶ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﮑﯿﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺭہاﺋﺶ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺁﯾﺎ ﮐﺮﯾﮟ۔۔۔
ﺗﺎﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺭہاﺋﺶ ﮔﺎﮦ ﮐﮯ ﭘﻼﭦ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮨﻮ ﺍﻭﺭﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺭہاﺋﺶ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﺼﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻧﮯ ﺑﺎﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺘﮯ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﯾﮟ۔۔۔
*ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻭﺍﺣﺪ ﺍﻧﭩﺮﻧﯿﺸﻨﻞ ﮬﺎﻭﺳﻨﮓ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﭘﮑﻮ ﺩﻭﮔﺰ ﮐﺎﭘﻼﭦ ﺑﻐﯿﺮ ﺗﺮﻗﯿﺎﺗﯽ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻠﺘﺎ ہے۔۔۔*
۔۔۔
ﺟﮩﺎﮞ ہر ﻓﺮﺩ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﻼﭦ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ،
ﮐﺸﺎﺩﮔﯽ، ﺧﻮﺷﮕﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻏﺎﺕ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﺮﮐﮯ ﺁﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ۔۔۔
*ﻟﮩﺬﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﮮ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﺎﺕ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮﮞ، ﺍﻭﺭ ﮐﻤﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺁﭘﮑﯽ ﺁﻣﺪ ﮐﯽ۔۔۔*
۔۔۔
*ﺍﻟﻠﮧ ہم ﺳﺐ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﻮ ﺁﺳﺎﻥ ﺑﻨﺎﺋﮯ۔۔۔
*ﺁﻣﯿﻦ
میرے نہایت ہی محترم و مکرم قارئین کرام
چلتے، چلتے ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر یہ تحریرpost اچھی لگئے
تو
مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے،
یقین کیجئے
کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہوگا، لیکن ہو سکتا ہے کہ،
اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر(Post) ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز و باعث مغفرت ثابت ہو..!!
گوگن بابا
فیض احمد فیض۔۔۔
*جس دیس سے ماؤں بہنوں کو*
*اغیار اٹھا کر لے جائیں*
*جس دیس سے قاتل غنڈوں کو*
*اشراف چھڑا کر لے جائیں*
*جس دیس کی کورٹ کچہری میں*
*انصاف ٹکوں پر بکتا ہو*
*جس دیس کا منشی قاضی بھی*
*مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو*
*جس دیس کے چپے چپے پر*
*پولیس کے ناکے ہوتے ہوں*
*جس دیس کے مندر مسجد میں*
*ہر روز دھماکے ہوتے ہوں*
*جس دیس میں جاں کے رکھوالے*
*خود جانیں لیں معصوموں کی*
*جس دیس میں حاکم ظالم ہوں*
*سسکی نہ سنیں مجبوروں کی*
*جس دیس کے عادل بہرے ہوں*
*آہیں نہ سنیں معصوموں کی*
*جس دیس کی گلیوں کوچوں میں*
*ہر سمت فحاشی پھیلی ہو*
*جس دیس میں بنت حوا کی*
*چادر بھی داغ سے میلی ہو*
*جس دیس میں آٹے چینی کا*
*بحران فلک تک جا پہنچے*
*جس دیس میں بجلی پانی کا*
*فقدان حلق تک جا پہنچے*
*جس دیس کے ہر چوراہے پر*
*دو چار بھکاری پھرتے ہوں*
*جس دیس میں روز جہازوں سے*
*امدادی تھیلے گرتے ہوں*
*جس دیس میں غربت ماؤں سے*
*بچے نیلام کراتی ہو*
*جس دیس میں دولت شرفاء سے*
*نا جائز کام کراتی ہو*
*جس دیس کے عہدیداروں سے*
*عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں*
*جس دیس کے سادہ لوح انساں*
*وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں*
*اس دیس کے ہر اک لیڈر پر*
*سوال اٹھانا واجب ہے*
*اس دیس کے ہر اک حاکم کو*
*سولی پہ چڑھانا واجب ہے*
*جس دیس سے ماؤں بہنوں کو*
*اغیار اٹھا کر لے جائیں*
*جس دیس سے قاتل غنڈوں کو*
*اشراف چھڑا کر لے جائیں*
*جس دیس کی کورٹ کچہری میں*
*انصاف ٹکوں پر بکتا ہو*
*جس دیس کا منشی قاضی بھی*
*مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو*
*جس دیس کے چپے چپے پر*
*پولیس کے ناکے ہوتے ہوں*
*جس دیس کے مندر مسجد میں*
*ہر روز دھماکے ہوتے ہوں*
*جس دیس میں جاں کے رکھوالے*
*خود جانیں لیں معصوموں کی*
*جس دیس میں حاکم ظالم ہوں*
*سسکی نہ سنیں مجبوروں کی*
*جس دیس کے عادل بہرے ہوں*
*آہیں نہ سنیں معصوموں کی*
*جس دیس کی گلیوں کوچوں میں*
*ہر سمت فحاشی پھیلی ہو*
*جس دیس میں بنت حوا کی*
*چادر بھی داغ سے میلی ہو*
*جس دیس میں آٹے چینی کا*
*بحران فلک تک جا پہنچے*
*جس دیس میں بجلی پانی کا*
*فقدان حلق تک جا پہنچے*
*جس دیس کے ہر چوراہے پر*
*دو چار بھکاری پھرتے ہوں*
*جس دیس میں روز جہازوں سے*
*امدادی تھیلے گرتے ہوں*
*جس دیس میں غربت ماؤں سے*
*بچے نیلام کراتی ہو*
*جس دیس میں دولت شرفاء سے*
*نا جائز کام کراتی ہو*
*جس دیس کے عہدیداروں سے*
*عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں*
*جس دیس کے سادہ لوح انساں*
*وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں*
*اس دیس کے ہر اک لیڈر پر*
*سوال اٹھانا واجب ہے*
*اس دیس کے ہر اک حاکم کو*
*سولی پہ چڑھانا واجب ہے*
Faiz Ahmed Faiz poetry
*اپنی نسلوں کو لعنت سکول سے بچاو*
یہ چھٹی یا ساتویں جماعت کا کمرہ تھا اور میں کسی اور ٹیچر کی جگہ کلاس لینے چلا گیا۔
تھکن کے باوجود کامیابی کے موضوع پر طلبا کو لیکچر دیا اور پھر ہر ایک سے سوال کیا
ہاں جی تم نے کیا بننا ہے
ہاں جی آپ کیا بنو گے
ہاں جی آپ کاکیا ارادہ ہے کیا منزل ہے ۔
سب طلبا کے ملتے جلتے جواب ۔
ڈاکٹر
انجینیر
پولیس
فوجی
بزنس مین ۔
لیکن ایسے لیکچر کے بعد یہ میرا روٹین کا سوال تھا اور بچوں کے روٹین کے جواب ۔جن کو سننا کانوں کو بھلا اور دل کو خوشگوار لگتا تھا ۔
لیکن ایک جواب آج بھی دوبارہ سننے کو نا ملا کان تو اس کو سننے کے متلاشی تھے ہی مگر روح بھی بے چین تھی ۔
عینک لگاۓ بیٹھا خاموش گم سم بچہ جس کو میں نے بلند آواز سے پکار کر اس کی سوچوں کاتسلسل توڑا ۔
ہیلو ارے میرے شہزادے آپ نے کیا بننا ہے۔ آپ بھی بتا دو ۔کیا آپ سر تبسم سے ناراض ہیں۔
*بچہ آہستہ سے کھڑا ہوا اور کہا سر میں نور الدین زنگی بنوں گا۔*
میری حیرت کی انتہإ نا رہی اور کلاس کے دیگر بچے ہنسنے لگے ۔ اس کی آواز گویا میرا کلیجہ چیر گٸی ہو ۔ روح میں ارتعاش پیدا کر دیا ۔
پھر پوچھا بیٹا آپ کیا بنو گے ۔ سر میں نور الدین زنگی بادشاہ بنوں گا ۔ ادھر اس کاجواب دینا تھا ادھر میری روح بے چین ہو گٸی جیسے اسی جذبے کی اسی آواز کی تلاش میں اس شعبہ تدریس کواپنایا ہو ۔
بیٹا آپ ڈاکٹر فوجی یا انجینیر کیوں نہیں بنو گے ۔
سر امی نے بتایا ہے کہ اگر میں نور الدین زنگی بنوں گا تو مجھے نبی پاک ﷺ کا۔دیدار ہو گا جو لوگ ڈنمارک میں ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کررہے ہیں ان کو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔
اس کے ساتھ ساتھ اس بچے کی آواز بلند اور لہجے میں سختی آرہی تھی ۔
اس کی باتیں سن کر۔میرا جسم پسینہ میں شرابور ہو گیا ادھر کلاس کے اختتام کی گھنٹی بجی اور میں روتا ہوا باہر آیا ۔
مجھے اس بات کااحساس ہے کہ آج ماوں نے نور الدین زنگی پیدا کرنے چھوڑ دیے ہیں اور اساتذہ نے نور الدین زنگی بنانا چھوڑ دیے ہیں ۔
میں اس دن سے آج تا دم تحریر اپنے طلبا میں پھر سے وہ نور الدین زنگی تلاش کر رہاہوں ۔۔کیا آپ جانتے ہیں وہ کون ہے اس ماں نے اپنے بیٹے کو کس نورالدین زنگی کا تعارف کروایا ہو گا یہ واقعہ پڑھیے اور اپنے بچوں میں سے ایک عدد نور الدین زنگی قوم کو دیجیے۔
ایک رات سلطان نور الدین زنگی رحمتہ اللّه علیہ عشاء کی نماز پڑھ کر سوئے کہ اچانک اٹھ بیٹھے۔
اور نم آنکھوں سے فرمایا میرے ہوتے ہوئے میرے آقا دوعالم ﷺ کو کون ستا رہا ہے .
آپ اس خواب کے بارے میں سوچ رہے تھے جو مسلسل تین دن سے انہیں آ رہا تھااور آج پھر چند لمحوں پہلے انھیں آیا جس میں سرکار دو عالم نے دو افراد کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ مجھے ستا رہے ہیں.
اب سلطان کو قرار کہاں تھا انہوں نے چند ساتھی اور سپاہی لے کر دمشق سے مدینہ جانے کا ارادہ فرمایا .
اس وقت دمشق سے مدینہ کا راستہ ٢٠-٢٥ دن کا تھا مگر آپ نے بغیر آرام کیئے یہ راستہ ١٦ دن میں طے کیا. مدینہ پہنچ کر آپ نے مدینہ آنے اور جانے کے تمام راستے بند کرواے اور تمام خاص و عام کو اپنے ساتھ کھانے پر بلایا.
اب لوگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے ، آپ ہر چہرہ دیکھتے مگر آپکو وہ چہرے نظر نہ آے اب سلطان کو فکر لاحق ہوئی اور آپ نے مدینے کے حاکم سے فرمایا کہ کیا کوئی ایسا ہے جو اس دعوت میں شریک نہیں .
جواب ملا کہ مدینے میں رہنے والوں میں سے تو کوئی نہیں مگر دو مغربی زائر ہیں جو روضہ رسول کے قریب ایک مکان میں رہتے ہیں .
تمام دن عبادت کرتے ہیں اور شام کو جنت البقیح میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں ، جو عرصہ دراز سے مدینہ میں مقیم ہیں.
سلطان نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، دونوں زائر بظاہر بہت عبادت گزار لگتے تھے.
انکے گھر میں تھا ہی کیا ایک چٹائی اور دو چار ضرورت کی اشیاء.کہ یکدم سلطان کو چٹائی کے نیچے کا فرش لرزتا محسوس ہوا. آپ نے چٹائی ہٹا کے دیکھا تو وہاں ایک سرنگ تھی.
آپ نے اپنے سپاہی کو سرنگ میں اترنے کا حکم دیا .وہ سرنگ میں داخل ہویے اور واپس اکر بتایا کہ یہ سرنگ نبی پاک صلی اللہ علیھ والہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف جاتی ہے،
یہ سن کر سلطان کے چہرے پر غیظ و غضب کی کیفیت تری ہوگئی .آپ نے دونوں زائرین سے پوچھا کے سچ بتاؤ کہ تم کون ہوں.
حیل و حجت کے بعد انہوں نے بتایا کے وہ یہودی ہیں اور اپنے قوم کی طرف سے تمہارے پیغمبر کے جسم اقدس کو چوری کرنے پر مامور کے گئے ہیں.
سلطان یہ سن کر رونے لگے ،
*اسی وقت ان دونوں کی گردنیں اڑا دی گئیں.*
سلطان روتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ
💞"میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لئے اس غلام کو چنا گیا"💞
اس ناپاک سازش کے بعد ضروری تھا کہ ایسی تمام سازشوں کا ہمیشہ کہ لیے خاتمہ کیا جاۓ سلطان نے معمار بلاۓ اور قبر اقدس کے چاروں طرف خندق کھودنے کا حکم دیا یہاں تک کے پانی نکل آے.سلطان کے حکم سے اس خندق میں پگھلا ہوا سیسہ بھر دیا گیا.
💞
بعض کے نزدیک سلطان کو سرنگ میں داخل ہو کر قبر انور پر حاضر ہو کر قدمین شریفین کو چومنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔💞
تحریر لمبی ضرور ہے مگر آپ کو۔پسند آٸی توعشق آقا کےواسطے اسے شٸیر کیجیے گا ۔ اس تحریر کو کاپی کرتے ہوئے آگے بڑھائیے۔اچھی بات اگے پھیلانا بھی صدقہ ہے شکریہ.
Bachu ka future
ایک آٹھ سال کا بچہ مسجد کے ایک طرف کونے میں اپنی
چھوٹی بہن کے ساتھ بیٹھا
ہاتھ اٹھا کر اللہ پاک سے نہ
جانے کیا مانگ رہا تھا؟
کپڑوں میں پیوند لگا تھا
مگر
نہایت صاف تھے
اس کے ننھےننھے سے گال آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے
بہت سے لوگ اس کی طرف متوجہ تھے
اور
وہ بالکل بےخبر اللہ پاک سے باتوں میں لگا ھوا تھا
جیسے ہی وہ اٹھا
ایک اجنبی نے بڑھ کر اسکا ننھا سا ہاتھ پکڑا
اور پوچھا
اللہ پاک سے کیا مانگ رھے ھو؟
اس نے کہا کہ
میرے ابو مر گۓ ھیں
ان کےلئے جنت
میری امی ہر وقت
روتی رہتی ھے
اس کے لئے صبر
میری بہن ماں سے کپڑے مانگتی ھے
اس کے لئے رقم
اجنبی نے سوال کیا
کیا آب سکول جاتے ھو؟
بچے نے کہا
ہاں جاتا ھوں
اجنبی نے پوچھا
کس کلاس میں پڑھتے ھو؟
نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا
ماں چنے بنا دیتی ھے
وہ سکول کے بچوں کو فروخت کرتا ھوں
بہت سارے بچے مجھ سے چنے خریدتے ھیں
ہمارا یہی کام دھندا ھے
بچے کا ایک ایک لفظ میری روح میں اتر رھا تھا
تمہارا کوئ رشتہ دار
اجنبی نہ چاہتے ھوۓ بھی بچے سے پوچھ بیٹھا؟
امی کہتی ھے غریب کا کوئ رشتہ دار نہیں ھوتا
امی کبھی جھوٹ نہیں بولتی
لیکن انکل جب ھم
کھانا کھا رہے ھوتےہیں
اور میں کہتا ھوں
امی آپ بھی کھانا کھاؤ تو
وہ کہتی ھیں میں نے
کھالیا ھے
اس وقت لگتا ھے
وہ جھوٹ بول رھی ھیں.
بیٹا اگر گھر کا خرچ مل جاۓ تو تم پڑھوگے؟
بچہ:بالکل نہیں
کیونکہ تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ھیں
ہمیں کسی پڑھے ھوۓ نے کبھی نہیں پوچھا
پاس سے گزر جاتے ھیں
اجنبی حیران بھی تھا
اور
پریشان بھی
پھر اس نے کہا کہ
ہر روز اسی مسجد میں آتا ھوں
کبھی کسی نے نہیں پوچھا
یہاں تمام آنے والے میرے والد کو جانتے تھے
مگر
ہمیں کوئی نہیں جانتا
بچہ زور زور سے رونے لگا
انکل جب باپ مر جاتا ھے تو سب اجنبی بن جاتے ھیں
میرے پاس بچے کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا
ایسے کتنے معصوم ھوں گے
جو حسرتوں سے زخمی ھیں
بس ایک کوشش کیجۓ
اور
اپنے اردگرد ایسے ضروت مند
یتیموں اور بےسہارا کو
ڈھونڈئے
اور
ان کی مدد کیجئے
مدرسوں اور مسجدوں میں سیمنٹ یا اناج کی بوری
دینے سے پہلے اپنے آس پاس کسی غریب کو دیکھ لیں
شاید اسکو آٹے کی بوری زیادہ ضرورت ھو
تصویر یا ویڈیو بھیجنے کی جگہ یہ میسج کم ازکم ایک یا دو گروپ میں ضرور شئیر کریں
خود میں اور معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوشش جاری رکھیں.
جزاک اللہ
(ایک دفعہ شیعر ضرور کیجیئے گا پلیز پڑھ کر)
چھوٹی بہن کے ساتھ بیٹھا
ہاتھ اٹھا کر اللہ پاک سے نہ
جانے کیا مانگ رہا تھا؟
کپڑوں میں پیوند لگا تھا
مگر
نہایت صاف تھے
اس کے ننھےننھے سے گال آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے
بہت سے لوگ اس کی طرف متوجہ تھے
اور
وہ بالکل بےخبر اللہ پاک سے باتوں میں لگا ھوا تھا
جیسے ہی وہ اٹھا
ایک اجنبی نے بڑھ کر اسکا ننھا سا ہاتھ پکڑا
اور پوچھا
اللہ پاک سے کیا مانگ رھے ھو؟
اس نے کہا کہ
میرے ابو مر گۓ ھیں
ان کےلئے جنت
میری امی ہر وقت
روتی رہتی ھے
اس کے لئے صبر
میری بہن ماں سے کپڑے مانگتی ھے
اس کے لئے رقم
اجنبی نے سوال کیا
کیا آب سکول جاتے ھو؟
بچے نے کہا
ہاں جاتا ھوں
اجنبی نے پوچھا
کس کلاس میں پڑھتے ھو؟
نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا
ماں چنے بنا دیتی ھے
وہ سکول کے بچوں کو فروخت کرتا ھوں
بہت سارے بچے مجھ سے چنے خریدتے ھیں
ہمارا یہی کام دھندا ھے
بچے کا ایک ایک لفظ میری روح میں اتر رھا تھا
تمہارا کوئ رشتہ دار
اجنبی نہ چاہتے ھوۓ بھی بچے سے پوچھ بیٹھا؟
امی کہتی ھے غریب کا کوئ رشتہ دار نہیں ھوتا
امی کبھی جھوٹ نہیں بولتی
لیکن انکل جب ھم
کھانا کھا رہے ھوتےہیں
اور میں کہتا ھوں
امی آپ بھی کھانا کھاؤ تو
وہ کہتی ھیں میں نے
کھالیا ھے
اس وقت لگتا ھے
وہ جھوٹ بول رھی ھیں.
بیٹا اگر گھر کا خرچ مل جاۓ تو تم پڑھوگے؟
بچہ:بالکل نہیں
کیونکہ تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ھیں
ہمیں کسی پڑھے ھوۓ نے کبھی نہیں پوچھا
پاس سے گزر جاتے ھیں
اجنبی حیران بھی تھا
اور
پریشان بھی
پھر اس نے کہا کہ
ہر روز اسی مسجد میں آتا ھوں
کبھی کسی نے نہیں پوچھا
یہاں تمام آنے والے میرے والد کو جانتے تھے
مگر
ہمیں کوئی نہیں جانتا
بچہ زور زور سے رونے لگا
انکل جب باپ مر جاتا ھے تو سب اجنبی بن جاتے ھیں
میرے پاس بچے کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا
ایسے کتنے معصوم ھوں گے
جو حسرتوں سے زخمی ھیں
بس ایک کوشش کیجۓ
اور
اپنے اردگرد ایسے ضروت مند
یتیموں اور بےسہارا کو
ڈھونڈئے
اور
ان کی مدد کیجئے
مدرسوں اور مسجدوں میں سیمنٹ یا اناج کی بوری
دینے سے پہلے اپنے آس پاس کسی غریب کو دیکھ لیں
شاید اسکو آٹے کی بوری زیادہ ضرورت ھو
تصویر یا ویڈیو بھیجنے کی جگہ یہ میسج کم ازکم ایک یا دو گروپ میں ضرور شئیر کریں
خود میں اور معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوشش جاری رکھیں.
جزاک اللہ
(ایک دفعہ شیعر ضرور کیجیئے گا پلیز پڑھ کر)