Posted by : Social media masti
Monday, December 17, 2018
سخاوت کی سنہری مثال
بھائی مجھے تھوڑا سا شہد دے دیں ..... مجھے اشد ضرورت ہے، مجھے ایک بیماری ہے ..... اس کا علاج شہد سے ممکن ہے۔
افسوس! میرے پاس اس وقت شہد نہیں ہے ..... ویسے شہد آپ کو مل سکتا ہے ..... لیکن آپ کو کچھ دور جانا پڑےگا، ملک شام سے ایک بڑے تاجر کا تجارتی قافلہ آرہا ہے ..... وہ تاجر بہت اچھے انسان ہیں ..... مجھے امید ہے، وہ آپ کی ضرورت کے لیے شہد ضرور دے دیں گے۔
ضرورت مند نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شہر سے باہر نکل آیا تاکہ قافلہ وہاں پہنچے تو تاجر سے شہد کے لیے درخواست کر سکے۔
آخر قافلہ آتا نظر آیا۔ وہ فوراً اٹھا اور اس کے نزدیک پہنچ گیا۔ اس قافلے کے امیر کے بارے میں پوچھا۔ لوگوں نے ایک خوبصورت اور بارونق چہرے والے شخص کی طرف اشارہ کر دیا۔ اب وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا:
حضرت! میں ایک بیماری میں مبتلا ہوں۔ اس کے علاج کے لیے مجھے تھوڑے سے شہد کی ضرورت ہے۔
انھوں نے فوراً اپنے غلام سے فرمایا:
جس اونٹ پر شہد کے دو مٹکے لدے ہیں، ان میں سے ایک مٹکا اس بھائی کو دے دیں۔
غلام نے یہ سن کر کہا:
آقا! اگر ایک مٹکا اسے دے دیا تو اونٹ پر وزن برابر نہیں رہ جائےگا۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا: تب پھر دونوں مٹکے انھیں دے دیں۔
یہ سن کر غلام گھبرا گیا اور بولا:
آقا! یہ اتنا وزن کیسے اٹھائے گا۔ اس پر آقا نے کہا: تو پھر اونٹ بھی اسے دے دو۔ غلام فوراً دوڑا اور وہ اونٹ مٹکوں کے ساتھ اس کے حوالے کر دیا۔ وہ ضرورت مند ان کا شکریہ ادا کر کے اونٹ کی رسی تھام کر چلا گیا۔
وہ حیران بھی تھا اور دل سے بے تحاشہ دعائیں بھی دے رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا، یہ شخص کس قدر سخی ہے، میں نے اس سے تھوڑا سا شہد مانگا۔ اس نے مجھے دو مٹکے دے دیے۔ مٹکے ہی نہیں، وہ اونٹ بھی دے دیا جس پر مٹکے لدے ہوئے تھے۔
اِدھر غلام اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آقا نے غلام سے کہا:
جب میں نے تم سے کہا کہ اسے ایک مٹکا دے دو تو تم نہیں گئے، دوسرا مٹکا دینے کے لیے کہا تو بھی تم نہیں گئے، پھر جب میں نے یہ کہا کہ اونٹ بھی اسے دے دو تو تم دوڑتے ہوئے چلے گئے۔ اس کی کیا وجہ تھی؟
غلام نے جواب دیا:
آقا! جب میں نے یہ کہا کہ ایک پورا مٹکا دینے سے اونٹ پر وزن برابر نہیں رہے گا تو آپ نے دوسرا مٹکا بھی دینے کا حکم فرمایا، جب میں نے یہ کہا کہ وہ دونوں مٹکے کیسے اٹھائے گا تو آپ نے فرمایا اونٹ بھی اسے دے دو ۔ اب میں ڈرا کہ اگر اب میں نے کوئی اعتراض کیا تو آپ مجھے بھی اس کے ساتھ جانے کا حکم فرما دیں گے۔ اس لیے میں نے دوڑ لگا دی۔
اس پر آقا نے کہا:
اگر تم اس کے ساتھ چلے جاتے تو اس غلامی سے آزاد ہو جاتے ۔ یہ تو اور اچھا ہوتا ۔
جواب میں غلام نے کہا:
آقا! میں آزادی نہیں چاہتا، اس لیے کہ آپ کو تو مجھ جیسے سیکڑوں غلام مل جائیں گے، لیکن مجھے آپ جیسا آقا نہیں ملےگا۔ میں آپ کی غلامی میں رہنے کو آزادی سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔
آپ کو معلوم ہے یہ آقا کون تھے؟
یہ حضرت عثمان غنیؓ تھے..!!