Archive for 2018
سر پلیز....
مجهے ایک بات بتائیے...
وہ میرے سامنے میز کی دوسری طرف بیٹهہ کر بڑے اعتماد سے بولی...
جو عورت پچهلے پانچ سال سے آپ کے ساتهہ ہے اور آپ کے دو بچوں کی ماں بهی ہے اس میں اچانک ایسی کیا برائی کیا خرابی یا کمی واقع ہو گئی کہ آپ اس کی ساری محبتیں
خدمتیں اور قربانیاں بهلا کر میری طرف مائل ہو گئے؟...
ایسا کچهہ بهی نہیں بات صرف اتنی سی ہے کہ مجهے تم سے محبت ہے....
اور آپ نے اس محبت کو ملکیت سمجهہ لیا مجهے بتاے بغیر مجهہ سے پوچهے بغیر...
پوچهہ تو رہا ہوں تم مان جاو میں اسے چهوڑ دوں گا....
یعنی آپ کی خوشی کی خاطر اپنے جیسی عورت کا گهر تباہ کر دوں جو بالکل بے قصور ہے یہ جانتی بهی نہیں کہ آپ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں. مجهہ میں تو اتنی ہمت نہیں سر....
وہ حتمی فیصلہ سنانے لگی....
میں بے حد پریشان ہو گیا....
سمجهہ میں نہیں آ رہا تها کہ اسے کیا کہوں مجهے خاموش دیکهہ کر بولی....
کیا سوچنے لگے سر؟...
سوچ رہا ہوں رب کو منانا کتنا آسان ہے لیکن اس کے بندوں کو منانا کتنا مشکل....
پهر تو آپ جانتے ہیں کہ رب نارا ض بهی ہو جاتا ہے....
میں خاموش رہا تو میرے چہرے پر نظریں جما کر بڑے سکون سے بولی....
میرے رب کو وہ انسان سب سے زیادہ نا پسند ہے جو میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالے یا ان کے بیچ نفرت پیدا کر کے ان کی علیحدگی کا سبب بنے کیا آپ چاہتے ہیں سر کہ میں خدا کے ان ناپسندیدہ بندوں میں شامل ہو جاوں؟...
میں غور سے اسے دیکهنے لگا....
یہ کیسی محبت ہے آپ کی جو مجهے میرے رب کے حضور شرمندہ کرنا چاہتی ہے؟...
میرے پاس اس کی کسی بات کا معقول جواب نہیں تها میں بس اسے حاصل کرنا چاہتا تها لیکن وہ کسی صورت راضی نہ تهی....
کچهہ عرصہ اسی کشمکش میں گزرا پهر لاسٹ سمسٹر ہوئے اور وہ چلی گئی جانے سے پہلے میرے پاس آئی اور بولی....
سوری سر میں نے آپ کا دل دکهایا محبت میں ہم کبهی کبهی اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ قریب کے رشتوں کی کوئی اہمیت ہی باقی نہیں رہتی لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ہم غلطی پر تهے آپ کے ساتهہ بهی ایسا ہی ہو گا میں چلی جاوں گی تو آپ بهی نارمل ہو جائیں گے....
اس کے جانے کے بعد کافی عرصہ بے چینی میں گزرا پهر میں نے اپنی پوسٹنگ دوسرے شہر کروا لی ماحول بدلا زندگی کی مصروفیات بڑهیں تو آہستہ آہستہ اس کی یاد میں کمی آنے لگی آخر وہ وقت بهی آیا کہ وہ ذہن کے پردے سے بالکل محو ہو گئی....
کافی عرصے بعد ایک تقریب میں نظر آئی اسے دیکهہ کر ماضی یاد آگیا میں اپنی احمقانہ محبت کی داستان اسے سنا کر زور زور سے ہنستا رہا اپنی بیوقوفیوں کے قصے دلچسپ انداز میں سنا کر خوش ہوتا رہا اور وہ خاموشی سے سنتی رہی....
پهر مین نے پوچها سناو گهر بار کیسا ہے؟...
تو زور سے ہنس کر بولی....
گهر بار کیسا سر اکیلی بڑے مزے میں ہوں....
مطلب؟...
میں حیران ہوا شادی نہیں کی تم نے؟...
میں نے سر سری انداز میں پوچها....
تو پهیکی سی مسکراہٹ لئے بولی....
کیا کرتی سر آپ کے بعد کوئی اور اچها ہی نہیں لگا....
چائے کا کپ میرے ہاتهہ میں لرزنے لگا احساس ندامت نے قوت گویائی چهین لی ماضی آہستہ آہستہ زخم کریدنے لگا....
جسے بهولے ہوئے مجهے زمانہ گزر گیا وہ آج بهی میری یاد کے ساتھ رہ رہی تهی....
الفاظ حلق میں اٹکنے لگے خود کو سنبهال کر بڑی مشکل سے کہہ پایا....
مگر تم نے تو کبهی....
میری بات کاٹ کر بڑے کرب سے بولی....
جنہیں اللہ کی رضا کی خاطر چهوڑتے ہیں انہیں جزبوں کا احساس نہیں دلایا جاتا بس لاتعلقی کا گمان ہی کافی ہوتا ہے....
چائے چهلک کر میرے کپڑے داغدار کر گئی....
😢😢😢
مجهے ایک بات بتائیے...
وہ میرے سامنے میز کی دوسری طرف بیٹهہ کر بڑے اعتماد سے بولی...
جو عورت پچهلے پانچ سال سے آپ کے ساتهہ ہے اور آپ کے دو بچوں کی ماں بهی ہے اس میں اچانک ایسی کیا برائی کیا خرابی یا کمی واقع ہو گئی کہ آپ اس کی ساری محبتیں
خدمتیں اور قربانیاں بهلا کر میری طرف مائل ہو گئے؟...
ایسا کچهہ بهی نہیں بات صرف اتنی سی ہے کہ مجهے تم سے محبت ہے....
اور آپ نے اس محبت کو ملکیت سمجهہ لیا مجهے بتاے بغیر مجهہ سے پوچهے بغیر...
پوچهہ تو رہا ہوں تم مان جاو میں اسے چهوڑ دوں گا....
یعنی آپ کی خوشی کی خاطر اپنے جیسی عورت کا گهر تباہ کر دوں جو بالکل بے قصور ہے یہ جانتی بهی نہیں کہ آپ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں. مجهہ میں تو اتنی ہمت نہیں سر....
وہ حتمی فیصلہ سنانے لگی....
میں بے حد پریشان ہو گیا....
سمجهہ میں نہیں آ رہا تها کہ اسے کیا کہوں مجهے خاموش دیکهہ کر بولی....
کیا سوچنے لگے سر؟...
سوچ رہا ہوں رب کو منانا کتنا آسان ہے لیکن اس کے بندوں کو منانا کتنا مشکل....
پهر تو آپ جانتے ہیں کہ رب نارا ض بهی ہو جاتا ہے....
میں خاموش رہا تو میرے چہرے پر نظریں جما کر بڑے سکون سے بولی....
میرے رب کو وہ انسان سب سے زیادہ نا پسند ہے جو میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالے یا ان کے بیچ نفرت پیدا کر کے ان کی علیحدگی کا سبب بنے کیا آپ چاہتے ہیں سر کہ میں خدا کے ان ناپسندیدہ بندوں میں شامل ہو جاوں؟...
میں غور سے اسے دیکهنے لگا....
یہ کیسی محبت ہے آپ کی جو مجهے میرے رب کے حضور شرمندہ کرنا چاہتی ہے؟...
میرے پاس اس کی کسی بات کا معقول جواب نہیں تها میں بس اسے حاصل کرنا چاہتا تها لیکن وہ کسی صورت راضی نہ تهی....
کچهہ عرصہ اسی کشمکش میں گزرا پهر لاسٹ سمسٹر ہوئے اور وہ چلی گئی جانے سے پہلے میرے پاس آئی اور بولی....
سوری سر میں نے آپ کا دل دکهایا محبت میں ہم کبهی کبهی اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ قریب کے رشتوں کی کوئی اہمیت ہی باقی نہیں رہتی لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ہم غلطی پر تهے آپ کے ساتهہ بهی ایسا ہی ہو گا میں چلی جاوں گی تو آپ بهی نارمل ہو جائیں گے....
اس کے جانے کے بعد کافی عرصہ بے چینی میں گزرا پهر میں نے اپنی پوسٹنگ دوسرے شہر کروا لی ماحول بدلا زندگی کی مصروفیات بڑهیں تو آہستہ آہستہ اس کی یاد میں کمی آنے لگی آخر وہ وقت بهی آیا کہ وہ ذہن کے پردے سے بالکل محو ہو گئی....
کافی عرصے بعد ایک تقریب میں نظر آئی اسے دیکهہ کر ماضی یاد آگیا میں اپنی احمقانہ محبت کی داستان اسے سنا کر زور زور سے ہنستا رہا اپنی بیوقوفیوں کے قصے دلچسپ انداز میں سنا کر خوش ہوتا رہا اور وہ خاموشی سے سنتی رہی....
پهر مین نے پوچها سناو گهر بار کیسا ہے؟...
تو زور سے ہنس کر بولی....
گهر بار کیسا سر اکیلی بڑے مزے میں ہوں....
مطلب؟...
میں حیران ہوا شادی نہیں کی تم نے؟...
میں نے سر سری انداز میں پوچها....
تو پهیکی سی مسکراہٹ لئے بولی....
کیا کرتی سر آپ کے بعد کوئی اور اچها ہی نہیں لگا....
چائے کا کپ میرے ہاتهہ میں لرزنے لگا احساس ندامت نے قوت گویائی چهین لی ماضی آہستہ آہستہ زخم کریدنے لگا....
جسے بهولے ہوئے مجهے زمانہ گزر گیا وہ آج بهی میری یاد کے ساتھ رہ رہی تهی....
الفاظ حلق میں اٹکنے لگے خود کو سنبهال کر بڑی مشکل سے کہہ پایا....
مگر تم نے تو کبهی....
میری بات کاٹ کر بڑے کرب سے بولی....
جنہیں اللہ کی رضا کی خاطر چهوڑتے ہیں انہیں جزبوں کا احساس نہیں دلایا جاتا بس لاتعلقی کا گمان ہی کافی ہوتا ہے....
چائے چهلک کر میرے کپڑے داغدار کر گئی....
😢😢😢
Love story
صرف ہم ہی ہیں__، اُس کے دِل مِیں..
لے ڈوبی ہمیں___، یہ غلط فہمییاں.. ! 😞
ہم نے نہ قطرہ دیکھا، نہ کبھی دریا پہ غور کیا❤❤
بس جہاں تیری جھلک نظر آئی وہیں ڈوب گئے
۔ ۔ ۔ ۔ *بے پناہ عشق* ۔ ۔ ۔
دل میں جب __جگہ نہیں بچتی....
درد آنکھوں میں پھیل جاتا ہے .....:
۔ ۔ ۔ *بے پناہ عشق* ۔ ۔ ۔ ۔
آج کھا قسم اپنی خوبصورت آنکھوں کی۔۔۔
کیا تجھے ذرا بھی عشق نہیں ھے ھم سے۔۔۔❤
ہم اتنے حسین تو نہیں کہ لوگ ہم پےفدا ہو جائیں,,
مگر جس کو آنکھ اٹھا کے دیکھ لیں اسے الجھن میں ڈال دیتے ہیں,
اتنی وفاداری نہ کر کسی سے یوں مدہوش ہوکر♥️
یہ لوگ اک غلطی پہ ہزاروں وفائیں بھول جاتے ہیں💔
Poetry شاعری
سخاوت کی سنہری مثال
بھائی مجھے تھوڑا سا شہد دے دیں ..... مجھے اشد ضرورت ہے، مجھے ایک بیماری ہے ..... اس کا علاج شہد سے ممکن ہے۔
افسوس! میرے پاس اس وقت شہد نہیں ہے ..... ویسے شہد آپ کو مل سکتا ہے ..... لیکن آپ کو کچھ دور جانا پڑےگا، ملک شام سے ایک بڑے تاجر کا تجارتی قافلہ آرہا ہے ..... وہ تاجر بہت اچھے انسان ہیں ..... مجھے امید ہے، وہ آپ کی ضرورت کے لیے شہد ضرور دے دیں گے۔
ضرورت مند نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شہر سے باہر نکل آیا تاکہ قافلہ وہاں پہنچے تو تاجر سے شہد کے لیے درخواست کر سکے۔
آخر قافلہ آتا نظر آیا۔ وہ فوراً اٹھا اور اس کے نزدیک پہنچ گیا۔ اس قافلے کے امیر کے بارے میں پوچھا۔ لوگوں نے ایک خوبصورت اور بارونق چہرے والے شخص کی طرف اشارہ کر دیا۔ اب وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا:
حضرت! میں ایک بیماری میں مبتلا ہوں۔ اس کے علاج کے لیے مجھے تھوڑے سے شہد کی ضرورت ہے۔
انھوں نے فوراً اپنے غلام سے فرمایا:
جس اونٹ پر شہد کے دو مٹکے لدے ہیں، ان میں سے ایک مٹکا اس بھائی کو دے دیں۔
غلام نے یہ سن کر کہا:
آقا! اگر ایک مٹکا اسے دے دیا تو اونٹ پر وزن برابر نہیں رہ جائےگا۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا: تب پھر دونوں مٹکے انھیں دے دیں۔
یہ سن کر غلام گھبرا گیا اور بولا:
آقا! یہ اتنا وزن کیسے اٹھائے گا۔ اس پر آقا نے کہا: تو پھر اونٹ بھی اسے دے دو۔ غلام فوراً دوڑا اور وہ اونٹ مٹکوں کے ساتھ اس کے حوالے کر دیا۔ وہ ضرورت مند ان کا شکریہ ادا کر کے اونٹ کی رسی تھام کر چلا گیا۔
وہ حیران بھی تھا اور دل سے بے تحاشہ دعائیں بھی دے رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا، یہ شخص کس قدر سخی ہے، میں نے اس سے تھوڑا سا شہد مانگا۔ اس نے مجھے دو مٹکے دے دیے۔ مٹکے ہی نہیں، وہ اونٹ بھی دے دیا جس پر مٹکے لدے ہوئے تھے۔
اِدھر غلام اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آقا نے غلام سے کہا:
جب میں نے تم سے کہا کہ اسے ایک مٹکا دے دو تو تم نہیں گئے، دوسرا مٹکا دینے کے لیے کہا تو بھی تم نہیں گئے، پھر جب میں نے یہ کہا کہ اونٹ بھی اسے دے دو تو تم دوڑتے ہوئے چلے گئے۔ اس کی کیا وجہ تھی؟
غلام نے جواب دیا:
آقا! جب میں نے یہ کہا کہ ایک پورا مٹکا دینے سے اونٹ پر وزن برابر نہیں رہے گا تو آپ نے دوسرا مٹکا بھی دینے کا حکم فرمایا، جب میں نے یہ کہا کہ وہ دونوں مٹکے کیسے اٹھائے گا تو آپ نے فرمایا اونٹ بھی اسے دے دو ۔ اب میں ڈرا کہ اگر اب میں نے کوئی اعتراض کیا تو آپ مجھے بھی اس کے ساتھ جانے کا حکم فرما دیں گے۔ اس لیے میں نے دوڑ لگا دی۔
اس پر آقا نے کہا:
اگر تم اس کے ساتھ چلے جاتے تو اس غلامی سے آزاد ہو جاتے ۔ یہ تو اور اچھا ہوتا ۔
جواب میں غلام نے کہا:
آقا! میں آزادی نہیں چاہتا، اس لیے کہ آپ کو تو مجھ جیسے سیکڑوں غلام مل جائیں گے، لیکن مجھے آپ جیسا آقا نہیں ملےگا۔ میں آپ کی غلامی میں رہنے کو آزادی سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔
آپ کو معلوم ہے یہ آقا کون تھے؟
یہ حضرت عثمان غنیؓ تھے..!!
سخاوت کی سنہری مثال
بیٹی جب شادی کے اسٹیج سے ...
سسرال جاتی ہے تب .....
پرائی نہیں لگتی.
مگر ......
جب وہ میکے آ کر ہاتھ منہ دھونے کے بعد سامنے ٹنگے ٹاول کے بجائے اپنے بیگ سے مختصر رومال سے منہ پوچھتي
ہے،
تب وہ پرائی لگتی ہے.
جب وہ باورچی خانے کے دروازے پر نامعلوم سی کھڑی ہو جاتی ہے،
تب وہ پرائی لگتی ہے.
جب وہ پانی کے گلاس کے لئے ادھر ادھر آنکھیں گھماتي ہے،
تب وہ پرائی لگتی ہے.
جب وہ پوچھتی ہے واشنگ مشین چلاو کیا
تب وہ پرائی لگتی ہے.
جب میز پر کھانا لگنے کے بعد بھی برتن کھول کر نہیں دیکھتی
تو وہ پرائی لگتی ہے.
جب پیسے گنتے وقت اپنی نظریں چراتي ہے
تب وہ پرائی لگتی ہے.
جب بات بات پر غیر ضروری قہقہے لگا کر خوش ہونے کا ڈرامہ کرتی ہے
تب وہ پرائی لگتی ہے .....
اور لوٹتے وقت
'اب کب آئے گی' کے جواب میں 'دیکھو کب آنا ہوتا ہے' یہ جواب دیتی ہے،
تب ہمیشہ کے لئے پرائی ہو گئی ایسے لگتی ہے.
لیکن گاڑی میں بیٹھنے کے بعد
جب وہ چپکے سے آپ آنکھیں چھپا کے خشک کرنے والی کی کوشش کرتی.
تو وہ پرايا پن ایک جھٹکے میں بہہ جاتا
تب وہ پرائی سی لگتی
نہیں چاہئے حصہ بھیا
میرا مايكا سجائے رکھنا
کچھ نہ دینا مجھے
صرف محبت برقرار رکھنے
پاپا کے اس گھر میں
میری یاد بسائے رکھنا
بچوں کے ذہنوں میں
میرا مان برقرار رکھنے
بیٹی ہوں ہمیشہ اس کے گھر کی
یہ اعزاز سجايے رکھنا.
بیٹی سے ماں کا سفر......!!!!
بیٹی سے ماں کا سفر
بے فكري سے فکر کا سفر
رونے سے خاموش کرانے کا سفر
غصے سے تحمل کا سفر
پہلے جو آنچل میں چھپ جایا کرتی تھی.
آج کسی کو آنچل میں چھپا لیتی ہیں.
پہلے جو انگلی پہ گرم لگنے سے
گھر کو سر پہ اٹھایا کرتی تھی.
آج ہاتھ جل جانے پر بھی کھانا بنایا کرتی ہیں.
پہلے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پہ رو جایا کرتی تھی
آج بو بڑی بڑی باتوں کو ذہن میں چھپایا کرتی ہیں.
پہلے بھائی ،،
دوستوں سے لڑ لیا کرتی تھی.
آج ان سے بات کرنے کو بھی ترس جاتی ہیں.
ماں، ماں کہہ کر پورے گھر میں کھل کرتی تھی.
آج ماں سن کے آہستہ سے مسکرایا کرتی ہیں.
10 بجے اٹھنے پر بھی جلدی اٹھ جانا ہوتا تھا.
آج 7 بجے اٹھنے پر بھی لیٹ ہو جایا کرتی ہیں.
اپنے شوق پورے کرتے کرتے ہی سال گزر جاتا تھا.
آج خود کے لئے ایک کپڑا لینے کو ترس جایا کرتی ہے.
سارا دن مفت ہوکے بھی بزی بتایا کرتی تھی.
اب پورے دن کام کرکے بھی کام چورکہلایا کرتی ہیں.
ایک امتحان کے لئے پورے سال پڑھا کرتی تھی.
اب ہر روز بغیر تیاری کے امتحان دیا کرتی ہیں.
نہ جانے کب کسی کی بیٹی
کسی کی ماں بن گئی.
کب بیٹی ماں کے سفر میں
تبدیل ہو گئی .....
بیٹی جب سسرال جاتی ہے۔
میں ﻧﮯ ﮔﻮﺭﮐﻦ ﺑﺎﺑﺎ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ:
ﺑﺎﺑﺎ ﺟﯽ ﮔﻨﺎﮨﮕﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻗﺒﺮﻭﮞﮐﺎ ﺑﮭﯽﮐﭽﮫ ﺍﺣﻮﺍﻝ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ۔۔۔
ﺑﺎﺑﺎﺟﯽ ﺍﻓﺴﺮﺩﮦ ﻟﮩﺠﮯﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﮯ:
*اب ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﮮ ﺑﮩﺖ ﻣﺸﻘﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﯽ ہے*
*ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﻣﭩﯽ ﺳﺨﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﺘﮭﺮ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﺎﻭﭦ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔۔۔*
ﺁﺟﮑﻞ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﯽ کھدﺍﺋﯽ ﮐﮯﺩﻭﺭﺍﻥ
ﺳﺎﻧﭗ ﺑﭽﮭﻮ ﮐﺎ ﻧﮑﻞ ﺁﻧﺎ ﻋﺎﻡ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﻮ ﮔﺊ ﮨﮯ۔۔۔
ﮐﺌﯽ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﯽ کھدﺍﺋﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﯽ ﻭﺣﺸﺖ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺒﺮﺍﭦ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔۔۔
ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻗﺒﺮﮐﯽ کھدﺍﺋﯽ ﻧﻨﮕﮯ ﭘﺎﻭﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔۔۔۔
ﮐﺌﯽ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﯽ کھدﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﺮ ﺟﻠﻨﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯﺍﭘﻨﯽ زﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻗﺒﺮﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻗﺒﺮ ﺳﮯ ﺩﮬﻮﺍﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭﺁﮒ ﮐﮯﺷﻌﻠﮯ ﺑﮭﯽ۔۔۔
ﮐﺊ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺁﮒ ﺟﻠﺘﯽ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﭼﯿﺦﻭﭘﮑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺳﻦ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ۔۔۔
ﯾﮧ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﺎﺑﺎﺟﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺳﻮﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﺼﻮﺭ ﻣﯿﮟ،
*ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺒﺮﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻧﺎﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﺒﺮ ﺳﮯ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻧﮑﻞﮐﺮ ﮔﻮﺭﮐﻦ ﮐﺎ ﻭﺟﻮﺩ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ ﯾﺎ ﮔﻮﺭﮐﻦ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﺟﻼ ﮈﺍﻟﮯﮔﯽ؟؟؟*
*ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﺧﺒﺮ ﻗﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮ ﮐﮧ ﻧﮧ ﮨﻮ؟؟؟* 🙁🙁
۔۔۔
ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ، ﺁﭘﮑﯽ ﻓﺎﻧﯽ زﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮞﻋﺮﺽ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔۔۔
*ﻗﺒﺮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻭﮦ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﮔﮭﺮ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ صوﺭ ﮐﮯ ﭘﮭﻮﻧﮑﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺗﮏ ﺭﮨﻨﺎ ﻣﻘﺪﺭ ﭨﮩﺮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ۔۔۔*
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻮﮦ ﻟﯿﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﺎﺭﺿﯽ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻓﺮﺍﻣﻮﺵ ﮐﺮﮐﮯ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ
ﻣﯿﮟ
ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﺭہاﺋﺶ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﮑﯿﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺭہاﺋﺶ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺁﯾﺎ ﮐﺮﯾﮟ۔۔۔
ﺗﺎﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺭہاﺋﺶ ﮔﺎﮦ ﮐﮯ ﭘﻼﭦ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮨﻮ ﺍﻭﺭﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺭہاﺋﺶ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﺼﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻧﮯ ﺑﺎﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺘﮯ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﯾﮟ۔۔۔
*ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻭﺍﺣﺪ ﺍﻧﭩﺮﻧﯿﺸﻨﻞ ﮬﺎﻭﺳﻨﮓ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﭘﮑﻮ ﺩﻭﮔﺰ ﮐﺎﭘﻼﭦ ﺑﻐﯿﺮ ﺗﺮﻗﯿﺎﺗﯽ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻠﺘﺎ ہے۔۔۔*
۔۔۔
ﺟﮩﺎﮞ ہر ﻓﺮﺩ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﻼﭦ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ،
ﮐﺸﺎﺩﮔﯽ، ﺧﻮﺷﮕﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻏﺎﺕ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﺮﮐﮯ ﺁﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ۔۔۔
*ﻟﮩﺬﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﮮ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﺎﺕ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮﮞ، ﺍﻭﺭ ﮐﻤﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺁﭘﮑﯽ ﺁﻣﺪ ﮐﯽ۔۔۔*
۔۔۔
*ﺍﻟﻠﮧ ہم ﺳﺐ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﻮ ﺁﺳﺎﻥ ﺑﻨﺎﺋﮯ۔۔۔
*ﺁﻣﯿﻦ
میرے نہایت ہی محترم و مکرم قارئین کرام
چلتے، چلتے ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر یہ تحریرpost اچھی لگئے
تو
مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے،
یقین کیجئے
کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہوگا، لیکن ہو سکتا ہے کہ،
اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر(Post) ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز و باعث مغفرت ثابت ہو..!!
گوگن بابا
فیض احمد فیض۔۔۔
*جس دیس سے ماؤں بہنوں کو*
*اغیار اٹھا کر لے جائیں*
*جس دیس سے قاتل غنڈوں کو*
*اشراف چھڑا کر لے جائیں*
*جس دیس کی کورٹ کچہری میں*
*انصاف ٹکوں پر بکتا ہو*
*جس دیس کا منشی قاضی بھی*
*مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو*
*جس دیس کے چپے چپے پر*
*پولیس کے ناکے ہوتے ہوں*
*جس دیس کے مندر مسجد میں*
*ہر روز دھماکے ہوتے ہوں*
*جس دیس میں جاں کے رکھوالے*
*خود جانیں لیں معصوموں کی*
*جس دیس میں حاکم ظالم ہوں*
*سسکی نہ سنیں مجبوروں کی*
*جس دیس کے عادل بہرے ہوں*
*آہیں نہ سنیں معصوموں کی*
*جس دیس کی گلیوں کوچوں میں*
*ہر سمت فحاشی پھیلی ہو*
*جس دیس میں بنت حوا کی*
*چادر بھی داغ سے میلی ہو*
*جس دیس میں آٹے چینی کا*
*بحران فلک تک جا پہنچے*
*جس دیس میں بجلی پانی کا*
*فقدان حلق تک جا پہنچے*
*جس دیس کے ہر چوراہے پر*
*دو چار بھکاری پھرتے ہوں*
*جس دیس میں روز جہازوں سے*
*امدادی تھیلے گرتے ہوں*
*جس دیس میں غربت ماؤں سے*
*بچے نیلام کراتی ہو*
*جس دیس میں دولت شرفاء سے*
*نا جائز کام کراتی ہو*
*جس دیس کے عہدیداروں سے*
*عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں*
*جس دیس کے سادہ لوح انساں*
*وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں*
*اس دیس کے ہر اک لیڈر پر*
*سوال اٹھانا واجب ہے*
*اس دیس کے ہر اک حاکم کو*
*سولی پہ چڑھانا واجب ہے*
*جس دیس سے ماؤں بہنوں کو*
*اغیار اٹھا کر لے جائیں*
*جس دیس سے قاتل غنڈوں کو*
*اشراف چھڑا کر لے جائیں*
*جس دیس کی کورٹ کچہری میں*
*انصاف ٹکوں پر بکتا ہو*
*جس دیس کا منشی قاضی بھی*
*مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو*
*جس دیس کے چپے چپے پر*
*پولیس کے ناکے ہوتے ہوں*
*جس دیس کے مندر مسجد میں*
*ہر روز دھماکے ہوتے ہوں*
*جس دیس میں جاں کے رکھوالے*
*خود جانیں لیں معصوموں کی*
*جس دیس میں حاکم ظالم ہوں*
*سسکی نہ سنیں مجبوروں کی*
*جس دیس کے عادل بہرے ہوں*
*آہیں نہ سنیں معصوموں کی*
*جس دیس کی گلیوں کوچوں میں*
*ہر سمت فحاشی پھیلی ہو*
*جس دیس میں بنت حوا کی*
*چادر بھی داغ سے میلی ہو*
*جس دیس میں آٹے چینی کا*
*بحران فلک تک جا پہنچے*
*جس دیس میں بجلی پانی کا*
*فقدان حلق تک جا پہنچے*
*جس دیس کے ہر چوراہے پر*
*دو چار بھکاری پھرتے ہوں*
*جس دیس میں روز جہازوں سے*
*امدادی تھیلے گرتے ہوں*
*جس دیس میں غربت ماؤں سے*
*بچے نیلام کراتی ہو*
*جس دیس میں دولت شرفاء سے*
*نا جائز کام کراتی ہو*
*جس دیس کے عہدیداروں سے*
*عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں*
*جس دیس کے سادہ لوح انساں*
*وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں*
*اس دیس کے ہر اک لیڈر پر*
*سوال اٹھانا واجب ہے*
*اس دیس کے ہر اک حاکم کو*
*سولی پہ چڑھانا واجب ہے*
Faiz Ahmed Faiz poetry
*اپنی نسلوں کو لعنت سکول سے بچاو*
یہ چھٹی یا ساتویں جماعت کا کمرہ تھا اور میں کسی اور ٹیچر کی جگہ کلاس لینے چلا گیا۔
تھکن کے باوجود کامیابی کے موضوع پر طلبا کو لیکچر دیا اور پھر ہر ایک سے سوال کیا
ہاں جی تم نے کیا بننا ہے
ہاں جی آپ کیا بنو گے
ہاں جی آپ کاکیا ارادہ ہے کیا منزل ہے ۔
سب طلبا کے ملتے جلتے جواب ۔
ڈاکٹر
انجینیر
پولیس
فوجی
بزنس مین ۔
لیکن ایسے لیکچر کے بعد یہ میرا روٹین کا سوال تھا اور بچوں کے روٹین کے جواب ۔جن کو سننا کانوں کو بھلا اور دل کو خوشگوار لگتا تھا ۔
لیکن ایک جواب آج بھی دوبارہ سننے کو نا ملا کان تو اس کو سننے کے متلاشی تھے ہی مگر روح بھی بے چین تھی ۔
عینک لگاۓ بیٹھا خاموش گم سم بچہ جس کو میں نے بلند آواز سے پکار کر اس کی سوچوں کاتسلسل توڑا ۔
ہیلو ارے میرے شہزادے آپ نے کیا بننا ہے۔ آپ بھی بتا دو ۔کیا آپ سر تبسم سے ناراض ہیں۔
*بچہ آہستہ سے کھڑا ہوا اور کہا سر میں نور الدین زنگی بنوں گا۔*
میری حیرت کی انتہإ نا رہی اور کلاس کے دیگر بچے ہنسنے لگے ۔ اس کی آواز گویا میرا کلیجہ چیر گٸی ہو ۔ روح میں ارتعاش پیدا کر دیا ۔
پھر پوچھا بیٹا آپ کیا بنو گے ۔ سر میں نور الدین زنگی بادشاہ بنوں گا ۔ ادھر اس کاجواب دینا تھا ادھر میری روح بے چین ہو گٸی جیسے اسی جذبے کی اسی آواز کی تلاش میں اس شعبہ تدریس کواپنایا ہو ۔
بیٹا آپ ڈاکٹر فوجی یا انجینیر کیوں نہیں بنو گے ۔
سر امی نے بتایا ہے کہ اگر میں نور الدین زنگی بنوں گا تو مجھے نبی پاک ﷺ کا۔دیدار ہو گا جو لوگ ڈنمارک میں ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کررہے ہیں ان کو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔
اس کے ساتھ ساتھ اس بچے کی آواز بلند اور لہجے میں سختی آرہی تھی ۔
اس کی باتیں سن کر۔میرا جسم پسینہ میں شرابور ہو گیا ادھر کلاس کے اختتام کی گھنٹی بجی اور میں روتا ہوا باہر آیا ۔
مجھے اس بات کااحساس ہے کہ آج ماوں نے نور الدین زنگی پیدا کرنے چھوڑ دیے ہیں اور اساتذہ نے نور الدین زنگی بنانا چھوڑ دیے ہیں ۔
میں اس دن سے آج تا دم تحریر اپنے طلبا میں پھر سے وہ نور الدین زنگی تلاش کر رہاہوں ۔۔کیا آپ جانتے ہیں وہ کون ہے اس ماں نے اپنے بیٹے کو کس نورالدین زنگی کا تعارف کروایا ہو گا یہ واقعہ پڑھیے اور اپنے بچوں میں سے ایک عدد نور الدین زنگی قوم کو دیجیے۔
ایک رات سلطان نور الدین زنگی رحمتہ اللّه علیہ عشاء کی نماز پڑھ کر سوئے کہ اچانک اٹھ بیٹھے۔
اور نم آنکھوں سے فرمایا میرے ہوتے ہوئے میرے آقا دوعالم ﷺ کو کون ستا رہا ہے .
آپ اس خواب کے بارے میں سوچ رہے تھے جو مسلسل تین دن سے انہیں آ رہا تھااور آج پھر چند لمحوں پہلے انھیں آیا جس میں سرکار دو عالم نے دو افراد کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ مجھے ستا رہے ہیں.
اب سلطان کو قرار کہاں تھا انہوں نے چند ساتھی اور سپاہی لے کر دمشق سے مدینہ جانے کا ارادہ فرمایا .
اس وقت دمشق سے مدینہ کا راستہ ٢٠-٢٥ دن کا تھا مگر آپ نے بغیر آرام کیئے یہ راستہ ١٦ دن میں طے کیا. مدینہ پہنچ کر آپ نے مدینہ آنے اور جانے کے تمام راستے بند کرواے اور تمام خاص و عام کو اپنے ساتھ کھانے پر بلایا.
اب لوگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے ، آپ ہر چہرہ دیکھتے مگر آپکو وہ چہرے نظر نہ آے اب سلطان کو فکر لاحق ہوئی اور آپ نے مدینے کے حاکم سے فرمایا کہ کیا کوئی ایسا ہے جو اس دعوت میں شریک نہیں .
جواب ملا کہ مدینے میں رہنے والوں میں سے تو کوئی نہیں مگر دو مغربی زائر ہیں جو روضہ رسول کے قریب ایک مکان میں رہتے ہیں .
تمام دن عبادت کرتے ہیں اور شام کو جنت البقیح میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں ، جو عرصہ دراز سے مدینہ میں مقیم ہیں.
سلطان نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، دونوں زائر بظاہر بہت عبادت گزار لگتے تھے.
انکے گھر میں تھا ہی کیا ایک چٹائی اور دو چار ضرورت کی اشیاء.کہ یکدم سلطان کو چٹائی کے نیچے کا فرش لرزتا محسوس ہوا. آپ نے چٹائی ہٹا کے دیکھا تو وہاں ایک سرنگ تھی.
آپ نے اپنے سپاہی کو سرنگ میں اترنے کا حکم دیا .وہ سرنگ میں داخل ہویے اور واپس اکر بتایا کہ یہ سرنگ نبی پاک صلی اللہ علیھ والہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف جاتی ہے،
یہ سن کر سلطان کے چہرے پر غیظ و غضب کی کیفیت تری ہوگئی .آپ نے دونوں زائرین سے پوچھا کے سچ بتاؤ کہ تم کون ہوں.
حیل و حجت کے بعد انہوں نے بتایا کے وہ یہودی ہیں اور اپنے قوم کی طرف سے تمہارے پیغمبر کے جسم اقدس کو چوری کرنے پر مامور کے گئے ہیں.
سلطان یہ سن کر رونے لگے ،
*اسی وقت ان دونوں کی گردنیں اڑا دی گئیں.*
سلطان روتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ
💞"میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لئے اس غلام کو چنا گیا"💞
اس ناپاک سازش کے بعد ضروری تھا کہ ایسی تمام سازشوں کا ہمیشہ کہ لیے خاتمہ کیا جاۓ سلطان نے معمار بلاۓ اور قبر اقدس کے چاروں طرف خندق کھودنے کا حکم دیا یہاں تک کے پانی نکل آے.سلطان کے حکم سے اس خندق میں پگھلا ہوا سیسہ بھر دیا گیا.
💞
بعض کے نزدیک سلطان کو سرنگ میں داخل ہو کر قبر انور پر حاضر ہو کر قدمین شریفین کو چومنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔💞
تحریر لمبی ضرور ہے مگر آپ کو۔پسند آٸی توعشق آقا کےواسطے اسے شٸیر کیجیے گا ۔ اس تحریر کو کاپی کرتے ہوئے آگے بڑھائیے۔اچھی بات اگے پھیلانا بھی صدقہ ہے شکریہ.
Bachu ka future
ایک آٹھ سال کا بچہ مسجد کے ایک طرف کونے میں اپنی
چھوٹی بہن کے ساتھ بیٹھا
ہاتھ اٹھا کر اللہ پاک سے نہ
جانے کیا مانگ رہا تھا؟
کپڑوں میں پیوند لگا تھا
مگر
نہایت صاف تھے
اس کے ننھےننھے سے گال آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے
بہت سے لوگ اس کی طرف متوجہ تھے
اور
وہ بالکل بےخبر اللہ پاک سے باتوں میں لگا ھوا تھا
جیسے ہی وہ اٹھا
ایک اجنبی نے بڑھ کر اسکا ننھا سا ہاتھ پکڑا
اور پوچھا
اللہ پاک سے کیا مانگ رھے ھو؟
اس نے کہا کہ
میرے ابو مر گۓ ھیں
ان کےلئے جنت
میری امی ہر وقت
روتی رہتی ھے
اس کے لئے صبر
میری بہن ماں سے کپڑے مانگتی ھے
اس کے لئے رقم
اجنبی نے سوال کیا
کیا آب سکول جاتے ھو؟
بچے نے کہا
ہاں جاتا ھوں
اجنبی نے پوچھا
کس کلاس میں پڑھتے ھو؟
نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا
ماں چنے بنا دیتی ھے
وہ سکول کے بچوں کو فروخت کرتا ھوں
بہت سارے بچے مجھ سے چنے خریدتے ھیں
ہمارا یہی کام دھندا ھے
بچے کا ایک ایک لفظ میری روح میں اتر رھا تھا
تمہارا کوئ رشتہ دار
اجنبی نہ چاہتے ھوۓ بھی بچے سے پوچھ بیٹھا؟
امی کہتی ھے غریب کا کوئ رشتہ دار نہیں ھوتا
امی کبھی جھوٹ نہیں بولتی
لیکن انکل جب ھم
کھانا کھا رہے ھوتےہیں
اور میں کہتا ھوں
امی آپ بھی کھانا کھاؤ تو
وہ کہتی ھیں میں نے
کھالیا ھے
اس وقت لگتا ھے
وہ جھوٹ بول رھی ھیں.
بیٹا اگر گھر کا خرچ مل جاۓ تو تم پڑھوگے؟
بچہ:بالکل نہیں
کیونکہ تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ھیں
ہمیں کسی پڑھے ھوۓ نے کبھی نہیں پوچھا
پاس سے گزر جاتے ھیں
اجنبی حیران بھی تھا
اور
پریشان بھی
پھر اس نے کہا کہ
ہر روز اسی مسجد میں آتا ھوں
کبھی کسی نے نہیں پوچھا
یہاں تمام آنے والے میرے والد کو جانتے تھے
مگر
ہمیں کوئی نہیں جانتا
بچہ زور زور سے رونے لگا
انکل جب باپ مر جاتا ھے تو سب اجنبی بن جاتے ھیں
میرے پاس بچے کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا
ایسے کتنے معصوم ھوں گے
جو حسرتوں سے زخمی ھیں
بس ایک کوشش کیجۓ
اور
اپنے اردگرد ایسے ضروت مند
یتیموں اور بےسہارا کو
ڈھونڈئے
اور
ان کی مدد کیجئے
مدرسوں اور مسجدوں میں سیمنٹ یا اناج کی بوری
دینے سے پہلے اپنے آس پاس کسی غریب کو دیکھ لیں
شاید اسکو آٹے کی بوری زیادہ ضرورت ھو
تصویر یا ویڈیو بھیجنے کی جگہ یہ میسج کم ازکم ایک یا دو گروپ میں ضرور شئیر کریں
خود میں اور معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوشش جاری رکھیں.
جزاک اللہ
(ایک دفعہ شیعر ضرور کیجیئے گا پلیز پڑھ کر)
چھوٹی بہن کے ساتھ بیٹھا
ہاتھ اٹھا کر اللہ پاک سے نہ
جانے کیا مانگ رہا تھا؟
کپڑوں میں پیوند لگا تھا
مگر
نہایت صاف تھے
اس کے ننھےننھے سے گال آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے
بہت سے لوگ اس کی طرف متوجہ تھے
اور
وہ بالکل بےخبر اللہ پاک سے باتوں میں لگا ھوا تھا
جیسے ہی وہ اٹھا
ایک اجنبی نے بڑھ کر اسکا ننھا سا ہاتھ پکڑا
اور پوچھا
اللہ پاک سے کیا مانگ رھے ھو؟
اس نے کہا کہ
میرے ابو مر گۓ ھیں
ان کےلئے جنت
میری امی ہر وقت
روتی رہتی ھے
اس کے لئے صبر
میری بہن ماں سے کپڑے مانگتی ھے
اس کے لئے رقم
اجنبی نے سوال کیا
کیا آب سکول جاتے ھو؟
بچے نے کہا
ہاں جاتا ھوں
اجنبی نے پوچھا
کس کلاس میں پڑھتے ھو؟
نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا
ماں چنے بنا دیتی ھے
وہ سکول کے بچوں کو فروخت کرتا ھوں
بہت سارے بچے مجھ سے چنے خریدتے ھیں
ہمارا یہی کام دھندا ھے
بچے کا ایک ایک لفظ میری روح میں اتر رھا تھا
تمہارا کوئ رشتہ دار
اجنبی نہ چاہتے ھوۓ بھی بچے سے پوچھ بیٹھا؟
امی کہتی ھے غریب کا کوئ رشتہ دار نہیں ھوتا
امی کبھی جھوٹ نہیں بولتی
لیکن انکل جب ھم
کھانا کھا رہے ھوتےہیں
اور میں کہتا ھوں
امی آپ بھی کھانا کھاؤ تو
وہ کہتی ھیں میں نے
کھالیا ھے
اس وقت لگتا ھے
وہ جھوٹ بول رھی ھیں.
بیٹا اگر گھر کا خرچ مل جاۓ تو تم پڑھوگے؟
بچہ:بالکل نہیں
کیونکہ تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ھیں
ہمیں کسی پڑھے ھوۓ نے کبھی نہیں پوچھا
پاس سے گزر جاتے ھیں
اجنبی حیران بھی تھا
اور
پریشان بھی
پھر اس نے کہا کہ
ہر روز اسی مسجد میں آتا ھوں
کبھی کسی نے نہیں پوچھا
یہاں تمام آنے والے میرے والد کو جانتے تھے
مگر
ہمیں کوئی نہیں جانتا
بچہ زور زور سے رونے لگا
انکل جب باپ مر جاتا ھے تو سب اجنبی بن جاتے ھیں
میرے پاس بچے کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا
ایسے کتنے معصوم ھوں گے
جو حسرتوں سے زخمی ھیں
بس ایک کوشش کیجۓ
اور
اپنے اردگرد ایسے ضروت مند
یتیموں اور بےسہارا کو
ڈھونڈئے
اور
ان کی مدد کیجئے
مدرسوں اور مسجدوں میں سیمنٹ یا اناج کی بوری
دینے سے پہلے اپنے آس پاس کسی غریب کو دیکھ لیں
شاید اسکو آٹے کی بوری زیادہ ضرورت ھو
تصویر یا ویڈیو بھیجنے کی جگہ یہ میسج کم ازکم ایک یا دو گروپ میں ضرور شئیر کریں
خود میں اور معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوشش جاری رکھیں.
جزاک اللہ
(ایک دفعہ شیعر ضرور کیجیئے گا پلیز پڑھ کر)
بچہ کیا دعا کر رہا تھا
((((((( نورا ڈاکو ))))))))
مولانا ضیاءآللہ صاحب نےاپنی کتاب میں لکھا ، فرماتے ہیں۔
"مجھے وہاڑی کے اک گاؤں سے بڑا محبت بھرا خط لکھاگیا کہ مولانا صاحب ہمارے گاؤں میں آج تک سیرة النبى پر بیان نہی ہوا۔ ہمارا بہت دل کرتا ہے ،آپ ہمیں وقت عنائیت فرما دیں ہم تیاری کر لیں گے ۔ " میں نے محبت بھرے جزبات دیکھ کرخط لکھ دیا کہ فلاں تاریخ کو میں حاضر ہو جاؤں گا۔
دیئے گئے وقت پر میں فقیر ٹرین پر سے اتر کر تانگہ پر بیٹھ کرگاؤں پہنچ گیا تو آگے میزبانوں نے مجھے ھدیہ پیش کر کے کہا مولانا آپ جا سکتے ہیں ہم بیان نہیں کروانا چاہتے۔ وجہ پوچھی تو بتایا کہ ہمارے گاؤں میں %90 قادیانی ہیں وہ ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں کہ نا تو تمہاری عزتیں نہ مال نہ گھربار محفوظ رہیں گے اگر سیرة النبى پر بیان کروایا تو۔
مولانا ہم کمزور ہیں غریب ہیں تعداد میں بھی کم ہیں اس لیئے ہم نہی کرسکتے۔"میں نے لفافہ واپس کردیا اور کہا بات تمہاری ہوتی یامیری ہوتی تو واپس چلا جاتا بات مدینے والے آقاﷺکی عزت کی آگئی ہے اب بیان ہوگا ضرور ۔ وہ گھبرا گئے کہ آپ تو چلے جائیں گے مسئلہ تو ہمارے لئیے ہوگا۔
میں نے کہا، "اس گاؤں کے آس پاس کوئی ڈنڈے والا ہے؟" انہوں نے بتایا کہ گاؤں سے کچھ دور نورا ڈاکو ہے پورا علاقہ اس سے ڈرتا ہے۔میں نے کہا چلو مجھے لے چلو نورے کے پاس جب ہم نورے کے ڈیرے پر پہنچے دیکھ کرنورا بولا اج کھیر اے مولوی کیوں آگئے نے ؟
میں نے کہا کہ بات حضورﷺ کی عزت کی آ گئی ہے تم کچھ کرو گے؟ میری بات سن کرنورا بجلی کی طرح کھڑا ہوا اور بولا، "میں ڈاکو ضرور آں پر بےغيرت نئی آں۔"
وہ ہمیں لے کرچل نکلا مسجد میں 3گھنٹے بیان کیا میں نے ۔ اور نورا ڈٹ کرکھڑا رہا آخر میں نورے نے یہ کہا کہ اگر کسی نےمسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھاکربھی دیکھا تو نورے سےبچ نہی سکے گا۔
میں واپس آگیا کچھ ماہ بعد میرے گھر پر اک آدمی آیا سر پرعمامہ چہرے پرداڑھی زبان پر درود پاک کاورد میں نےپوچھا، "کون ہو..؟ ". وہ رو کر بولا، "مولانا میں نورا ڈاکو آں۔جب اس دن میں واپس گھر کو لوٹا جا کر سو گیا . آنکھ لگی ہی تھی پیارے مصطفٰی کریمﷺ میری خواب میں تشریف لائے میرا ماتھا چوما اور فرمایا ، "آج تو نے میری عزت پر پہرا دیا ہے، میں اور میرا اللہﷻ تم پرخوش ہوگئے ہیں۔ اللہﷻ نے تیرے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیئے ہیں."
مولانا صاحب اس کے بعد میری آنکھ کھلی تو سب کچھ بدل چکا تھا اب تو ہر وقت آنکھوں سے آنسو ہی خشک نہی ہوتے مولانا صاحب میں آپ کاشکریہ ادا کرنے آیا ہوں آپ کی وجہ سے تو میری زندگی ہی بدل گئی میری آخرت سنور گئی ہے۔
اے میرے پیارے اللہ جو شخص بھی اس کو شیئر کرے اس کو حضور ص کی خواب میں زیارت نصیب فرما۔آمین
مولانا ضیاءآللہ صاحب نےاپنی کتاب میں لکھا ، فرماتے ہیں۔
"مجھے وہاڑی کے اک گاؤں سے بڑا محبت بھرا خط لکھاگیا کہ مولانا صاحب ہمارے گاؤں میں آج تک سیرة النبى پر بیان نہی ہوا۔ ہمارا بہت دل کرتا ہے ،آپ ہمیں وقت عنائیت فرما دیں ہم تیاری کر لیں گے ۔ " میں نے محبت بھرے جزبات دیکھ کرخط لکھ دیا کہ فلاں تاریخ کو میں حاضر ہو جاؤں گا۔
دیئے گئے وقت پر میں فقیر ٹرین پر سے اتر کر تانگہ پر بیٹھ کرگاؤں پہنچ گیا تو آگے میزبانوں نے مجھے ھدیہ پیش کر کے کہا مولانا آپ جا سکتے ہیں ہم بیان نہیں کروانا چاہتے۔ وجہ پوچھی تو بتایا کہ ہمارے گاؤں میں %90 قادیانی ہیں وہ ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں کہ نا تو تمہاری عزتیں نہ مال نہ گھربار محفوظ رہیں گے اگر سیرة النبى پر بیان کروایا تو۔
مولانا ہم کمزور ہیں غریب ہیں تعداد میں بھی کم ہیں اس لیئے ہم نہی کرسکتے۔"میں نے لفافہ واپس کردیا اور کہا بات تمہاری ہوتی یامیری ہوتی تو واپس چلا جاتا بات مدینے والے آقاﷺکی عزت کی آگئی ہے اب بیان ہوگا ضرور ۔ وہ گھبرا گئے کہ آپ تو چلے جائیں گے مسئلہ تو ہمارے لئیے ہوگا۔
میں نے کہا، "اس گاؤں کے آس پاس کوئی ڈنڈے والا ہے؟" انہوں نے بتایا کہ گاؤں سے کچھ دور نورا ڈاکو ہے پورا علاقہ اس سے ڈرتا ہے۔میں نے کہا چلو مجھے لے چلو نورے کے پاس جب ہم نورے کے ڈیرے پر پہنچے دیکھ کرنورا بولا اج کھیر اے مولوی کیوں آگئے نے ؟
میں نے کہا کہ بات حضورﷺ کی عزت کی آ گئی ہے تم کچھ کرو گے؟ میری بات سن کرنورا بجلی کی طرح کھڑا ہوا اور بولا، "میں ڈاکو ضرور آں پر بےغيرت نئی آں۔"
وہ ہمیں لے کرچل نکلا مسجد میں 3گھنٹے بیان کیا میں نے ۔ اور نورا ڈٹ کرکھڑا رہا آخر میں نورے نے یہ کہا کہ اگر کسی نےمسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھاکربھی دیکھا تو نورے سےبچ نہی سکے گا۔
میں واپس آگیا کچھ ماہ بعد میرے گھر پر اک آدمی آیا سر پرعمامہ چہرے پرداڑھی زبان پر درود پاک کاورد میں نےپوچھا، "کون ہو..؟ ". وہ رو کر بولا، "مولانا میں نورا ڈاکو آں۔جب اس دن میں واپس گھر کو لوٹا جا کر سو گیا . آنکھ لگی ہی تھی پیارے مصطفٰی کریمﷺ میری خواب میں تشریف لائے میرا ماتھا چوما اور فرمایا ، "آج تو نے میری عزت پر پہرا دیا ہے، میں اور میرا اللہﷻ تم پرخوش ہوگئے ہیں۔ اللہﷻ نے تیرے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیئے ہیں."
مولانا صاحب اس کے بعد میری آنکھ کھلی تو سب کچھ بدل چکا تھا اب تو ہر وقت آنکھوں سے آنسو ہی خشک نہی ہوتے مولانا صاحب میں آپ کاشکریہ ادا کرنے آیا ہوں آپ کی وجہ سے تو میری زندگی ہی بدل گئی میری آخرت سنور گئی ہے۔
اے میرے پیارے اللہ جو شخص بھی اس کو شیئر کرے اس کو حضور ص کی خواب میں زیارت نصیب فرما۔آمین
Noora dako نُورا ڈاکُو
اسے یہاں آۓ دو ہفتہ ہونے کو آے تھے۔ بی جان کے ساتھ اب اس کی اچھی خاصی دوستی ہو گی تھی۔
بی جان کے کہنےپر وہ ایک بار گھر جا کر ماما اور رمشا۶ سےمل کر آگی تھی اور شہلا کو بی جان کی شفیق اور سادہ طبعیت کے بارے میں سن کر کچھ تسلی ہوئی تھی۔حلیمہ اپنے گاؤں واپس چلی گی تھی۔
زمل بی جان کو ناشتہ کروا کر اب اخبار پڑھ کر سنا رہی تھی۔
”بسس زمل۔۔ یہ سب سن کر دل گھبرانے لگتا ہے۔“بی جان نے آدھا اخبار سن کر ہی اسے روک دیا تھا۔
”بی جان آپ اتنی جلدی کیوں پریشان ہو جاتی ہیں۔ یہ سب باتیں تو اب ہمارے معاشرے میں عام ہیں “ زمل نے اخبار تہہ کر کہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔
”بس بیٹا دل کمزور ہو گیا ہے عمر کا تقاضا ہے یہ سب سن کر دل پریشان ہو جاتا ہے“ بی جان نےسنجیدگی سے کہا۔۔
”اب اتنی بھی بوڑھی نہیں ہیں آپ جتنا آپ خود کو سمجھتی ہیں“ زمل۔نےشریر انداز میں کہا۔
”کبھی کبھی بالکل شیر جیسی باتیں کرتی ہو۔ وہ بھی مجھے ایسے ہی چھیڑتا ہے۔“ بی جان نے مسکرا کر کہا۔۔۔
”دیکھ لیں دو لوگ کہہ رہیں ہیں تو جھوٹ تو نہیں نا بول رہے ہم۔ اب مان لیں کہ آپ بوڑھی نہیں ہیں“ زمل نے اٹھ کر کھڑکی کے پردےبرابر کیے۔
بی جان نے مسکرا کر سامنے کھڑی بے حد نازک اور دلکش سی لڑکی کو دیکھا۔ جو بالوں کا جوڑا بناۓ بے حد سادہ سے حلیے میں بھی بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔
”بی جان ایسے کیا دیکھ رہی ہیں“ زمل نے بی جھجک کر پوچھا۔
ہوں ۔ کچھ نہیں ۔ دو دن ہو گےشیر سے بات نہیں ہوئی پتا نہیں کہاں مصروف ہے۔“ انہوں نے جلدی سے بات بنائی۔۔
”آپ کہیں تو فون ملا دوں بات کر لیں“ زمل نے فورأ مشورہ دیا۔
”کیا پتا مصروف ہو فارغ ہو کر خود ہی بات کرلے گا۔“
”میں ہوں ناں آپ کے پاس بی جان کیوں أداس ہوتی ہیں “زمل ان کے پاس بیڈ پر بیٹھ گی۔
”بی جان نے پیار سے اس کے نرم وناذک ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا
”تم بالکل مجھے شیر کی طرح ہی عزیز ہو“ ان کو اس معصوم سی لڑکی سے عجیب سا انس ہوتا جا رہا تھا۔۔
”آپ شیر کو بہت مس کرتی ہیں“ زمل نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا۔۔۔
”ہاں۔۔ وہ ہے ہی ایسا کہ اسے یاد کیا جاۓ“ بی جان کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی۔۔۔
”میں شیر سے بہت جیلس ہو رہی ہوں بی جان“ زمل نے مصنوعی خفگی سے کہا۔۔۔
کیوں“ بی جان حیران ہوئيں۔۔۔
”کیونکہ آپ ہر وقت ان کو یاد کرتی ہیں۔۔۔ میں آپ کے سامنے ہوں اور میری کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔۔۔ آپ صرف کہنے کو میری بی جان بنی ہیں۔۔۔ پیار بس شیر سے ہی کرتی ہیں“ زمل نے شکوہ کیا۔۔۔
”ارے نہیں میں تم سے بھی اتنا ہی پیار کرتی ہوں“بی جان نے محبت سے اس کے ہاتھ تھامے۔۔۔
بی جان نے شیر کے لیے ہمیشہ ہادیہ کو سوچا تھا اور اب زمل کو دیکھ کر شیر کا خیال آجاتا ان کے بے حد ہنڈسم اور سوبر سے پوتےکے لیے یہ لڑکی ان کے دل کو بھا گئی تھی۔
اتنے میں شیر کی کال آئی تو بی جان سب کچھ بھول کر اس سے باتوں میں مگن ہوگی تھی۔ زمل وہیں بیٹھی بی جان کی باتیں سنتی رہی۔ پھر بی جان نے فون بند کر کے زمل کو سکائپ آن کرنے کو کہا۔
زمل نے لیپ ٹاپ بی جان کی گود میں رکھا اور سکائپ آن کر دیا۔ اور خود اٹھ کر کمرے سے باہرنکل گی۔۔۔۔
”پتا ہے زمل آج مجھ سے لڑ رہی تھی کہ آپ شیر سے ذیادہ پیار کرتی ہیں“ بی جان اسکرین پر نظریں جماۓ بولیں۔۔۔
پھر آپ نے کیا کہا“ اس نے اشتیاق سے پوچھا۔۔۔
”میں نے کہہ دیا کہ میں جتنی محبت اپنے شیر سے کرتی ہوں اتنی ہی تم سے کرتی ہوں۔۔ پھر جا کر مانی ہے“ بی جان نے ہنس کر بتایا۔۔۔تو شیر بھی مسکرا دیا۔۔۔
”بی جان میں جیلس ہو رہا ہوں اب یہ زمل کہیں آپ کو مجھ سے چھین ہی نا لے۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں واپس آؤں تو آپ مجھے اپنا پوتا ماننے سے انکار کر دیں کہ میری صرف ایک ہی پوتی ہے“ وہ بی جان کو خوش دیکھ کر مطمئين ہو گیا تھا وہ جان گیا تھا کہ زمل ان کا بے حد خیال رکھتی ہے۔۔۔
ایک تو تم دونوں ناں۔۔۔ بالکل ایک جیسے ہو“
وہ کیسے“وہ متجسس ہوا۔۔۔۔
”تم دونوں کی سوچ ،خیالات سب ملتا ہے اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ وہ بالکل تمہاری طرح ضدی ہے“بی جان اب اسے تفصیل سے ہر بات بتا رہی تھیں۔۔۔
بی جان کتنی دیر تک شیر سے باتیں کرتی رہی جس میں ذیادہ تر ذکر زمل کا ہی تھا جسے وہ سن کر مسکرا دیتا۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔ ۔
رات کے آٹھ بج رہے تھے حیدر یونیورسٹی سے آکر اسائمنٹ پر کام کر رہا تھا جو تین دن بعد جمع کروانی تھی۔ اسائمنٹ بناتے کب اس کی آنکھ لگی اسے خبر ہی نہ ہوئی۔
آنکھ کھلی وال کلاک پر نظر پڑی تو ہڑبڑاتا ہوا اٹھا اسے کافی کی شدید طلب ہو رہی تھی۔کھڑکی سے پردہ ہٹایاتو باہر ہلکی پھلکی بارش ہو رہی تھی چابی اٹھائی چھاتا پکڑا اورپارٹمنٹ سے باہر آگیا۔
اس کا ارادہ پیدل قریبی کافی شاپ پر چانے کا تھا۔ راستے میں اس نے ایک دو ضروری کالز کی اور کافی شاپ پر آکر کافی آڈر کی۔
کھڑکی کے قریب پڑے ٹیبل کی طرف آیا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ ہال میں نظریں دوڑائی تو تین چار ٹیبلز ہی خالی تھے باقی ٹیبلز پر کوئی بیٹھا سینڈوچ کھا رہا تھا تو کوئی کافی سے لطف اندوز ہو رہا تھا وہ بھی اپنی کافی کا انتظار کرنے لگا۔ سامنے ٹیبل پر بیٹھی تین انگریزلڑکیاں کسی بات پر قہقہہ لگا کر ہنسی تھیں۔ سامنے بلیک جیکٹ میں ملبوس لڑکی کی شہد آنکھییں اسے کسی کی یاد میں مبتلا کر گی وہ مبہوت سا اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔
ویٹرنے اسکی کافی ٹیبل پر رکھی تو وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اپنے خیالوں کو جھٹکتا کافی کوگھونٹ گھونٹ پیتا کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
بارش اب قدرے تیز ہو چکی تھی۔ کچھ لوگ سامنے شیڈز کے نیچے کھڑے بارش کے رکنےکاانتظار کر رہے تھے۔ کچھ چھاتا پکڑے آجا رہے تھے سڑک پر کہیں کہیں ہلکا ہلکا پانی جمع ہو چکا تھا۔ سامنے شراب کی بوتل کو منہ لگاۓ پچیس چھبیس سال کا نوجوان لڑکھڑاتا ہوا سڑک پر ادھر ادھر ہچکولے کھاتا چل رہا تھا حیدر اسے افسوس سے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔پھر حیدر کی نظریں بائيں جانب جاتےوجود پر پڑی تو وہ ششددرہ گیا۔
نیلے کوٹ کی جیب میں ایک ہاتھ ڈالے اور دوسرےسےچھاتا پکڑے وہ بڑے احتیاط سے قدم رکھتی آگے بڑھ رہی تھی ۔یہ نیلہ کوٹ اور یہ پنک چھتری وہ اچھی طرح سے پہچانتا تھا کہ کس کی تھی زمل اکثر سردیوں میں یہ کوٹ اور جب بارش ہوتی یہ چھاتا لے کر آتی تھی۔
مگر وہ دھوکہ نہیں کھا سکتا تھا اس کے لیئر میں کٹے کالے بال وہ ہزاروں میں پہچان سکتا تھا کہ وہ لڑکی کوئی اور نہیں زمل تھی۔ تیر کی سی تیزی سے اٹھا اورتقریبأ بھاگتا ہوا باہر نکلا۔۔۔۔۔
وہ اب کافی آگے جا چکی تھی حیدر تیزی سے اس کے پیچھے لپکا۔
راستے میں وہ کسی سے بری طرح ٹکرایا اور بڑی مشکل سے گرتے گرتے بچا۔ لمبے بالوں والا وہ انگریز اسے گالیاں بکنے لگا مگر اسے کچھ سنائی دیتا تو وہ کچھ کہتا وہ تیزی سے اگے بڑھا اورخود سے دور جاتی زمل کوپکارنے لگا مگر اسے شاید سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ ہانپتے ہوۓ اس تک پہنچا اور پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
زمل“ اس نے اپنی سانسوں کو ہموار کرتے ہوۓ کہا ۔۔۔
اس نے مڑ کر دیکھا تو حیدر کو اپنا دل ڈھوبتا ہوا محسوس ہوا۔وہ زمل نہیں کوئی اور لڑکی تھی اس نے سوالیہ نظروں سے حیدر کو دیکھا۔۔۔
سوری“ کہتا حیدر سر پکڑ کر واپس مڑا وہ اپنی اس کیفیت کو سمجھنے سے قاصر تھا وہ اب زمل کو دیکھنے کے لیے یوں خوار ہو رہا تھا اس کا دل اس کے بس میں نہیں تھا۔
اس نے پہلی بار خود سے اعتراف کیا کہ وہ زمل سے محبت کرنے لگا تھا اس کے سحر میں بری طرح سے مبتلا ہو چکا تھا۔وہ رات گے تک سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا وہ زمل کو لے کر الجھتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ آج وہ بے بسی کی انتہا پر تھا۔۔۔
تیری آنکھوں نے آنکھوں کا سسکنا بھی نہیں دیکھا
محبت بھی نہیں دیکھی، تڑپنا بھی نہیں دیکھا
نہیں دیکھا ابھی تم نےمیری تنہائی کا منظر
کہ اپنے آپ سے میرا الجھنا بھی نہیں دیکھا
ابھی تم نے تمہارے بن میری حالت نہیں دیکھی
ابھی تم نے میرا غم میں بلکنا بھی نہیں دیکھا
ابھی تم نے دغاؤں میں میرے آنسو نہیں دیکھے
خدا کے سامنے میرا سسکنا بھی نہیں دیکھا
ابھی تم نے نہیں دیکھا کوئی منظر جدائی کا
ابھی پتوں کا شاخوں سے بکھرنا بھی نہیں دیکھا
۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔
فجر کی نمازادا کرکے وہ کمرےسے باہر نکل آئی۔ اندھیرا ابھی پوری طرح سے چھٹا نہیں تھا۔ سردی بڑھنے لگی تھی۔
زمل نے شال أڑھ رکھی تھی راہداری میں چلتے ہوۓ وہ اس بند دروازے تک آئی تھی وہ شیر کا کمرہ تھا۔ بی جان سے اس کی اتنی تعریفیں سن کروہ اس ان دیکھے شخص سے عجیب سا لگاؤ محسوس کرتی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ اس کے کمرے میں جاۓ اور اس کا کمرہ اندر سے دیکھے۔
مگر اسے یوں کمرے میں بغیر اجازت جانا مناسب نہ لگا تو سیڑھیاں اتر کروہ بی جان کے کمرے تک آئی۔
دروازہ دھکیل کر اندر آئی تو بی جان نماز سے فارغ ہو کر تسبیح پڑھنے میں مشغول تھیں۔
بی جان کو سلام کیا اور ان کے قریب ہی بیٹھ گی۔ بی جان نے تسبیح مکمل کر کے آنکھیں کھولی بی جان نے کچھ پڑھ کر اس کے چہرے پر پھونک ماری زمل مسکرا دی۔
” چلیں بی جان“ زمل ایک دم اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔
کہاں جانا ہے“ بی جان حیران ہوئیں
آج ہم واک کریں گے چلیں لان میں چلتے ہیں“ اس نے فورأ کہا۔
”زمل مجھ سے اب اتنا نہیں چلا جاتا کہ واک کر سکوں“
”کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ کہ ٹانگوں میں درد ہے اب بوڑھی ہو گی ہوں یہ وہ ۔۔۔جانا تو پڑے گا۔“ زمل نے ان کی بات کاٹی۔
”زمل کیوں ضد کر رہی ہوان بوڑھی ہڈیوں میں اب اتنی جان نہیں ہے“ وہ اس کی اس اچانک فرمائش پر کچھ پریشان ہوئیں تھیں۔۔۔
”میں آج کچھ نہیں سنوں گی چلیں ذیادہ چلیں گے نہیں مگر فریش ہوا میں سانس لیں تو بھی طبعیت میں بہتری آتی ہے“ زمل آج ایسے ٹلنے والی نہیں تھی۔۔
ناچار ان کی زمل کی بات ماننا پڑی۔ اور بی جان ایک دو چکر میں ہی بری طرح ہانپ رہیں تھی۔ زمل ان کو لے کرلان میں رکھی کرسیوں کی طرف لے آئی۔
”افف بہت ضدی ہو تم۔ بالکل شیر جیسی وہ بھی کوئی بات کہہ دے تو پوری کروا کر ہی دم لیتا ہے۔“ بی جان نے سامنے لگی بیل کو دیکھا اب کافی پھیل چکی تھی۔
”اب ہم روز صبح آیا کریں گے۔“ زمل نےدھماکہ کیا۔
”نہیں بھئ کوئی اور سزادے دو یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔“ انہوں نے بڑی مشکل سے کھینچ کر سانس لیا۔
”کمرے میں رہ رہ کر آپ بالکل ہی بستر کی ہو کر رہ گئیں ہیں۔ باہر نکلیں گی تو دیکھیے گا کتنی جلدی ٹھیک ہوجائيں گیں“ زمل نےدلیل دی۔۔۔
” شیر ہوتا تھا تو شام کو یہیں بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کیا کرتے تھے جب سے وہ گیا تو“ بی جان نےبات ادھوری چھوڑ دی۔
زمل جانتی تھی کہ بی جان اب شیر کو مِس کرتی ہیں۔ اس لیے اب ہر بات میں شیر کا ذکر ہوتا تھا اور پھر أداس ہو جاتیں تھیں۔۔۔۔
”چھوڑیں یہ سب یہ بتائیں کےکیسا لگا صبح صبح یہاں آکر۔“ زمل نے تجسس سے پوچھا
”اچھا لگا ہے“ انہوں نے مسکرا کرزمل کو دیکھا جو بالوں کو کیچر میں جکڑے شال لپٹے ان کے سامنے بیٹھی تھی دو آوارہ لٹیں اس کے چہرے پر جھول رہیں تھیں
وہ اب لان میں لگے درختوں کو دیکھنے لگی۔ ہر طرح کا درخت اور پودے لان میں لگے تھے۔
”شیر کا شوق ہے یہ“ بی جان نے خوش دلی سے بتایا۔
زمل نے سوالیہ نظروں سے بی جان کی طرف دیکھا۔
”یہ سب کچھ شیر نے اپنے ہاتھوں سے لگایا ہے۔ اسے پودوں سے بہت لگاؤ ہے۔ “ بی جان کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔
”جب بھی کہیں جاتا تھا تو واپسی پر بیج لے آتا اور کہتا بی جان اسے اپنے لان میں لگائیں گے۔ کئ پودے ہم دونوں نے مل کر لگاۓ ہیں“ بی جان اسے ہر پودے کے بارے میں بتانے لگی کون ساشیرنے کب اور کیسے لگایا تھا۔
”پتا ہے زمل اس کے شوق بچپن سے ہی عام بچوں جیسے نہیں تھے۔اس کی کبھی مجھے کوئی شکایت نہیں ملی کہ اس نے کبھی کسی کو مارا پیٹا ہو۔ بہت ہی ٹھنڈے اور دھیمے مزاج کا ہے میرا شیر“بی جان اسے بتاتی چلی گی۔
”جس کی تربیت آپ نے کی ہو بی جان اس انسان میں خامیاں کیسے ہو سکتی ہیں“ زمل نے اعتراف کیا۔
”بس اللہ کا کرم ہے کہ اس نے مجھےسرخرو کر دیا ورنہ سارہ کو کیا منہ دکھاتی۔“ بی جان نے محبت سے زمل کو دیکھا۔
”اسلام علیکم“ ذمل نے چونک کر پیچھے دیکھا تو معیز سر کو دیکھ کر فورأ اٹھ کھڑی ھوئی۔۔
۔
اسلام علیکم سر“۔ زمل نے بوکھلا کر سلام کیا۔
جو سفید ٹریک سوٹ پہنے کھڑے تھے۔ ان کی کھڑی مغرور ناک اور بلا کی بے نیازی نے ان کی شخصیت کو ایک متاثر کن وقار بخشا دیا تھا۔
”بیٹھیں بیٹھیں مس زمل۔۔ آپ کیوں کھڑی ہوگیں ہیں۔“انہوں نے ہاتھ ٹراؤز کی جیب میں ڈالے۔
آپ بیٹھیں سر“ زمل نے جلدی سے کہا۔
وہ بی جان کے ساتھ والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گے۔
”واہ مس زمل ماننا پڑے گا۔ آپ بی جان کو باہر لے لآئیں ہیں“ انہوں نے بے تکلفی سے کہاتو زمل نے مسکرانے پر اکتفا کیا۔۔۔
”بی جان طبعیت کیسی ہے آپ کی اب؟“ وہ اب بی جان سے مخاطب تھے۔ ۔۔۔
ذمل کچھ دیر وہاں بیٹھ کر پھر أٹھ کر اندر آگی ۔ وہ دونوں ماں بیٹا اب باتوں میں مصروف تھے۔زمل کو معیز کو دیکھ کر نجانے کیوں لگتا کہ وہ ان کو پہلے بھی کہیں دیکھ چکی تھی مگر کہاں اسے بہت سوچنےپر بھی یاد نہیں آیا۔ ۔۔۔
وہ کتنی دیر الجھ کرسوچتی رہی پر کچھ یاد نہ آیا تو سر جھٹک کر بیڈ پر پڑی چادر کوتہہ کرنے لگی۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آج جیسے ہی وہ کلاس میں داخل ہوا ڈیزی نے ہاتھ ہلایا اور اشارے سے اس بلایا۔حیدر نے حیرت سے اسے دیکھا جو مسکرا کر اپنے ساتھ والی خالی کرسی کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ حیدر اس کے ساتھ والی کرسی پرخاموشی سے بیٹھ گیا۔
ہاۓ“ اس نے خوش دلی سے کہا
ہاۓ“ حیدر نے نوٹس فائل سے نکال کر ٹیبل پر رکھے۔
کیسے ہو“ اگلا سوال آیا۔۔۔
۔۔
ٹھیک ہوں“ اس نے مختصر جواب دیا۔
”میرا حال بھی پوچھ سکتے ہو مجھے برا نہیں لگے گا“ وہ دوستانہ انداز میں گویا ہوئی
حیدر نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا جو آج سنہری بالوں کو اونچی ٹیل میں باندھے مسکرا کر اس کو ہی دیکھ رہی تھی اسے نظر انداز کرتے سامنے دیکھنے لگا۔۔
۔ اتنے میں سرمارگٹ آگے اور وہ خاموشی سے لیکچر نوٹ کرنےلگا۔ تیس منٹ کے لیکچر میں اس نے اس ڈیزی نامی لڑکی کو سامنے دیکھتے اور نہ ہی لیکچر نوٹ کرتے دیکھا۔
وہ مسلسل پینسل سے سر مارگٹ کی مختلف شکلیں بناتی رہی۔اور منہ کھولے جمائياں لیتی رہی۔۔۔
”یار تم یہ فضول کی بکواس سن کر پکتے نہیں ہو“ سر مارگٹ کے جاتے ہی اس نے جھٹ سے پوچھا۔
نہیں۔ “ اس نے اپنی چیزیں سمیٹی اور اٹھ کھڑا ہوا
”چلو باہر کافی پینے چلتے ہیں“ وہ اب اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔
مجھے ابھی نوٹس بنانے ہیں۔ سوری میں کافی پینے نہیں جا سکتا میرے پاس ٹائم نہیں ہے“اس نے بڑے سلیقے سے انکار کیا۔ ۔۔
”مجھے تو پینی ہے اور تمہیں میرے ساتھ تو جانا پڑے گا۔
میں اور کچھ نہیں سنوں گی ہم دونوں جا رہے ہیں“ اس نے جلدی سے کہا
لیکن ڈیزی مجھے۔۔ ۔“
”لیکن ویکن کچھ نہیں۔ ۔ گھبراؤ مت بل میں پے کر دوں گی“وہ ہر صورت میں اسے ساتھ لے جانے پر تلی ہوئی تھی۔۔
۔
”ایسی بات نہیں میں نے بتایا ہے کہ مجھے نوٹس بنانے ہیں“
”نوٹس تم بعد میں بھی بنا سکتے ہو۔اب ہماری دوستی ہو چکی ہے اتنا حق تو بنتا ہے میرا کہ تم میرے ساتھ کافی پینے چلو“ حیدر اس کی بات سن کر حیران ہوا جو بڑی بے تکلفی سے ایک ملاقات کے بعد اسے دوست کہہ رہی تھی۔
”پھر کسی دن چلیں گےکافی پینے مگر آج نہیں آج بالکل ٹائم نہیں ہے“ وہ اسے ٹالنےکے موڈ میں تھا
” میں اچھی طرح سمجھ رہی ہوں کہ تم مجھے ٹال رہے ہو مگر میں اتنی آسانی سے ٹلنے والی نہیں ہوں ہم آج ہی جا رہے ہیں۔۔ “حیدر کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ایسے ٹلنے والی نہیں تھی مگر حیدر کو اس کے ساتھ کہیں جانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
” اور کسی لڑکی کی آفر کو یوں رد نہیں کرتے۔ اتنے بھی مینرزنہیں ہے تم میں۔ ۔ ۔۔ اب چلو“ وہ اس کا بازو پکڑے آگے بڑھی۔ حیدر نے نرمی سے اپنا بازو اس کے ہاتھوں سے الگ کیا اور خاموشی سے اس کے ساتھ چلنے لگا وہ خوامخواہ گلے پڑ رہی تھی۔۔۔
”پتاہے حیدر جب میں نے تمہیں دیکھا تھا تو میں اپنی نظریں نہیں ہٹا پائی تھی۔۔۔“ وہ بڑے موڈ میں بولی۔۔
اچھا“ حیدر کو اس کی باتوں میں ذرا دلچسپی نہیں تھی۔۔۔
”یہ کیا بات ہوئی۔۔۔ میں تمہاری تعریف کر رہی ہوں تم ”اچھا کہہ رہے ہو۔۔۔“ اس نے خفگی سے حیدر کو دیکھا۔۔۔ وہ بلیک شرٹ کی آستینوں کو کہنی تک فولڈ کیے بے دلی سے اس کے ساتھ چل رہا تھا۔۔۔
تو اور کیا کہنا چاہیے مجھے؟“ اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔۔۔
”تمہیں خوش ہونا چاہیے۔۔ اور اسی خوشی میں میری بھی تعریف کرنی چاہیے“ اس کی بات سن کر حیدر دھیرے سے مسکرا دیا۔۔۔
”شکر ہے تم ہنستے بھی ہو۔۔ اب اسی خوشی میں میں تمہیں اچھی سی کافی پلاتی ہوں۔“ وہ اسے مسکراتا دیکھ کر بچوں کی طرح خوش ہوئی۔۔۔
Novel
*جب عورت مرتی ھےاسکا جنازہ مرد اٹھاتا ھے ۔اسکو لحد میں یہی مرد اتارتا ھے پیدائش پر یہی مرد اسکے کان میں اذان دیتا ھے۔ باپ کے روپ میں سینے سے لگاتا ھےبھائی کےروپ میں تحفظ فراہم کرتاھےاورشوہرکے روپ میں محبت دیتا ھے۔ اور بیٹےکی صورت میں اس کےقدموں میں اپنےلیے جنت تلاش کرتا ھے ۔۔۔*
*واقعی بہت ھوس کی نگاہ سے دیکھتا ھے ۔۔۔ ھوس بڑھتے بڑھتے ماں حاجرہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صفاومروہ کے درمیان سعی تک لےجاتی ھے ۔اسی عورت کی پکار پر سندھ آپہنچتا ھے ۔اسی عورت کی خاطر اندلس فتح کرتاھے۔ اور اسی ھوس کی خاطر 80% مقتولین عورت کی عصمت کی حفاظت کی خاطر موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ واقعی ''مرد ھوس کا پجاری ھے۔''*
*لیکن جب ھوا کی بیٹی کھلا بدن لیے، چست لباس پہنے باہر نکلتی ھے اور اسکو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ھے تو یہ واقعی ھوس کا پجاری بن جاتا ھے ۔۔۔ اور کیوں نا ھو؟؟*
*کھلا گوشت تو آخر کتے بلیوں کے لیے ھی ھوتا ھے۔*
*جب عورت گھر سے باھر ھوس کے پجاریوں کا ایمان خراب کرنے نکلتی ھے۔ تو روکنےپر یہ آزادخیال عورت مرد کو "تنگ نظر" اور "پتھر کے زمانہ کا" جیسے القابات سے نواز دیتی ھے کہ کھلے گوشت کی حفاظت نہیں، کتوں بليوں کے منہ سینے چاہیے ھیں*
*ستر ہزار کا سیل فون ہاتھ میں لیکرتنگ شرٹ کے ساتھ پھٹی ھوئی جینز پہن کر ساڑھے چارہزار کا میک اپ چہرے پر لگا کر کھلے بالوں کو شانوں پر گرا کر انڈے کی شکل جیسا چشمہ لگا کر کھلےبال جب لڑکیاں گھر سے باہر نکل کر مرد کی ھوس بھری نظروں کی شکایت کریں تو انکو توپ کے آگے باندھ کر اڑادینا چاہئیے جو سیدھا یورپ و امریکہ میں جاگریں اور اپنے جیسی عورتوں کی حالتِ زار دیکھیں جنکی عزت صرف بستر کی حد تک محدود ھے*
*"سنبھال اے بنت حوا اپنے شوخ مزاج کو*
*ھم نے سرِبازار، حسن کو نیلام ھوتے دیکھا ھے"*
( *بانو قدسیہ*)
♥️♥️♥️
*دراز گردن، بدن كى مينا، خمار آنكهيں*
*همارى توبه نه رهنے دںے گى يه بنتِ حوا*
مرد_ھوس_کا_پجاری Marad hawas ka pujari
*سائنس ہمیں کہاں سے کہاں لے آئی۔۔۔*
*پہلے:-* وہ کنویں کا میلہ کچیلہ پانی پی کر بھی ۱۰۰ سال جی لیتے تھے۔۔
*اب:-* آر-او (RO) کا خالص شفاف پانی پی کر بھی چالیس سال میں بوڑھے ہو رہے ہیں۔۔۔۔
*پہلے:-* وہ گھانی کا میلہ سا تیل کھا کر بڑھاپے میں بھی محنت کر لیتے تھے۔۔۔
*اب:-* ہم ڈبل-ٹرپل فلٹر تیل کھا کر جوانی ہی میں ہانپ رہے ہیں۔۔
*پہلے:-* وہ ڈللے والا نمک کھا کر بیمار نہ پڑھتے تھے۔۔۔
*اب:-* ہم آیوڈین والا نمک کھا کر ہائ اور لو بلیڈ پریشر کا شکار ہے۔۔۔۔
*پہلے:-* وہ نیم، ببول،کوئلہ اور نمک سے دانت چمکاتے تھے اور ۸۰ سال کی عمر تک بھی چبا چبا کر کھاتے تھے۔۔۔۔
*اب:-* کولگیٹ والے روز ڈینٹیسٹ کے چکر لگاتے ہیں۔۔۔۔
*پہلے:-* وہ نبض پکڑ کر بیماری بتا دیتے تھے۔۔۔۔
*اب:-* ساری جانچ کرانے پر بھی بیماری نہی جان پاتے ہے۔۔۔۔
*پہلے:-* وہ سات آٹھ بچے پیدا کرنے والی مائیں، ۸۰ سال کی ہونے پر بھی کھیتوں میں کام کرتی تھی۔۔۔
*اب:-* پہلے مہینے سے ڈاکٹر کی دیکھ ریکھ میں رہیتے ہوئے بھی بچے آپریشن سے ہوتے ہے۔۔۔۔۔
*پہلے:-* کالے گڈ کی میٹھاییاں ٹھوک ٹھوک کر کھاتے تھے۔۔۔۔
*اب:-* کھانے سے پہلے ہی شوگر کی بیماری ہوجاتی ہے۔۔۔
*پہلے:-* بزرگوں کے کبھی گھٹنے نہی دکھتے تھے۔۔۔
*اب:-* جوان بھی گھٹنوں اور کمر درد سے کہارتا ہے۔۔۔
*پہلے:-* ۱۰۰ والٹ(100w) کے بلب جلاتے تھے تو بجلی کا بل ۲۰۰ روپیہ مہینہ آتا تھا۔۔۔
*اب:-* 9 والٹ(09w) کی سی ایف ایل(cfl) میں 6000 فی مہینہ کا بل آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
سمجھ نہیں آتا کے ہم کہاں کھڑےہے؟ کیوں کھڑے ہے؟ کیا کھویا کیا پایا؟ سائنس ہمارے حق میں رحمت ہے یا زحمت؟
سائنس کے کمالات
ایک آٹھ دس سال کی معصوم سی غریب لڑکی بک اسٹور پر چڑھتی ہے اور ایک پینسل اور ایک دس روپے والی کاپی خریدتی ہے اور پھر وہیں کھڑی ہو کر کہتی ہے انکل ایک کام کہوں کروگے؟
جی بیٹا بولو کیا کام ہے؟
انکل وہ کلر پینسل کا پیکٹ کتنے کا ہے، مجھے چاہیے، ڈرائنگ ٹیچر بہت مارتی ہے مگر میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں نہ ہی امی ابو کے پاس ہیں، میں آہستہ آہستہ کرکے پیسے دے دوں گی.
شاپ کیپر کی آنکھیں نم ہیں، بولتا ہے بیٹا کوئی بات نہیں یہ کلر پینسل کا پیکٹ لے جاؤ لیکن آئندہ کسی بھی دکاندار سے اس طرح کوئی چیز مت مانگنا، لوگ بہت برے ہیں، کسی پر بھروسہ مت کیا کرو.
جی انکل بہت بہت شکریہ میں آپ کے پیسے جلد دے دوں گی اور بچی چلی جاتی ہے.
ادھر شاپ کیپر یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے اللہ نہ کرے اگر ایسی بچیاں کسی وحشی دکاندار کے ہتھے چڑھ گئیں تو زینب کا سا حال ہی ہوگا.
ٹیچرز سے گذارش ہے خدارا اگر بچے کوئی کاپی پینسل کلر پینسل وغیرہ نہیں لا پاتے تو جاننے کی کوشش کیجئے کہ کہیں اس کی غربت اس کے آڑے تو نہیں آ رہی، اور ہو سکے تو ایسے معصوم بچوں کی تعلیم کے اخراجات آپ ٹیچر حضرات مل کر اٹھا لیا کریں، یقین جانیں ہزاروں لاکھوں کی تنخواہ میں سے چند سو روپے کسی کی زندگی نہ صرف بچا سکتے ہیں بلکہ سنوار بھی سکتے ہیں.
#Jawad_Butt
ایک ننھی بچِی
*1) خود کی جان خطرے میں ڈالنا*
= شادی کرنا🤩🤩😏😏😒😒😜😍😉
*2) آ بیل مجھے مار*
= بیوی سے پنگا لینا😭😭😭😢😢
*3) دیوار سے سر ٹکرانا*
= بیوی کو کچھ سمجھانا😉😉😉😌😌😌
*4) چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات*
بیوی کا مائیکے سے واپس آنا🤪🤪🧐🧐
*5). خود کشی پر ابھارنا*
= شادی کی رائے دینا 😜😜😜🤣🤣
*6). دشمنی نبھانا*
= دوستوں کی شادی کروانا😝😝😛😜😜
*8). گناہوں کی سزا ملنا*
= شادی شدہ ہوجانا😆😆😆😅
*13). خود کو لٹتے ہوئے دیکھنا*
= بیوی کی فرمائشیں پوری کرنا🤨🤨🤨🤓😄😄
*14) غلطی پر پچھتاوا کرنا*
شادی کی تصویریں دیکھنا😍😜😜😜😛😛
*15) اپنے پیر پر کلھاڑی مارنا*
بیوی کو گھمانے لے جانا😁😁😁😃😃
_*اگر کوئی اضافی محاورہ یا مندرجہ بالا میں ترمیم و اضافہ،تحریر کرنا چاہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔ اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے !!!*_
😂😂😜😜😂😂😂🤣🤣🤣🤪🤪🤪😜😜😜
مشہور محاوارت کے درست اور سچے مطلب
آرتھر آشے امریکہ کا نمبر ون ٹینس پلیئر تھا۔یہ عوام میں بے حد مقبول تھا اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ یہ ایک بہترین کھلاڑی تھا۔جب آپ متعلقہ فیلڈ میں عروج کی حد تک ماہر ہو جاتے ہیں تو آپ ہر دلعزیز بن جاتے ہیں۔ آرتھر کو ایک حادثے کے بعد انتہائی غفلت کے ساتھ ایڈز کے مریض کا خون لگا دیا گیا اور آرتھر کو بھی ایڈز ہو گیا
جب وہ بستر مرگ پر تھا اسے دنیا بھر سے اس کے فینز کے خطوط آتے تھے۔ایک فین نے خط بھیجا جس میں لکھا ہوا تھا “خدا نے اس خوفناک بیماری کے لیے تمہیں ہی کیوں چنا؟” آرتھر نے صرف اس ایک خط کا جواب دیا جو کہ یہ تھا “دنیا بھر میں پانچ کروڑ سے زائد بچے ٹینس کھیلنا شروع کرتے ہیں اور ان میں سے پچاس لاکھ ہی ٹینس کھیلنا سیکھ پاتے ہیں۔ان پچاس لاکھ میں سے پچاس ہزار ہی ٹینس کے سرکل میں داخل ہوتے ہیں جہاں ڈومیسٹک سے انٹرنیشنل لیول تک کھیل پاتے ہیں۔ان پچاس ہزار میں سے پانچ ہزار ہیں جو گرینڈ سلام تک پہنچ پاتے ہیں۔ان پانچ ہزار میں سے پچاس ہی ہیں جو ومبلڈن تک پہنچتے ہیں اور ان پچاس میں سے محض چار ہوتے ہیں جو ومبلڈن کے سیمی فائنل تک پہنچ پاتے ہیں ان چار میں سے صرف دوہی فائنل تک جاتے ہیں اور ان دو میں سے محض ایک ہی ٹرافی اٹھاتا ہے اور وہ ٹرافی اٹھانے والا پانچ کروڑ میں سے چنا جاتا ہے۔ وہ ٹرافی اٹھائے میں نے کبھی خدا سے نہیں پوچھا کہ “میں ہی کیوں؟” لہذا آج اگر درد مل رہا ہے تو میں خدا سے شکوے شروع کر دوں کہ میں ہی کیوں؟ جب ہم نے اپنے اچھے وقتوں میں خدا کو نہیں پوچھا کہ “?why me( میں ہی کیوں) تو ہم برے وقتوں میں کیوں پوچھیں ?why me (میں ہی کیوں) ۔
میں ہی کیوں؟؟؟
ایک گاوں میں غریب نائی رہتا تھا جو ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کے لوگوں کی حجامت کرتا ۔ مشکل سے گزر بسر ہوتی. اس کے پاس رہنے کو نہ گھر تھا نہ بیوی تھی نہ بچے تھے۔ ایک چادر اور ایک تکیہ اس کی ملکیت تھی ۔جب رات ہوتی تو وہ ایک بند سکول کے باہر چادر بچھاتا، تکیہ رکھتا اور سو جاتا.
ایک دن صبح کے وقت گاوں میں سیلاب آ گیا.
اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف شور و غل تھا۔ وہ اٹھا اور سکول کے ساتھ بنی ٹینکی پر چڑھ گیا. چادر بچھائی، دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا ۔
لوگ اپنا سامان، گھر کی قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہے تھے. کوئی نقدی لے کر بھاگ رہا ہے، کوئی زیور کوئی بکریاں تو کوئی کچھ قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہا ہے۔
اسی دوران ایک شخص بھاگتا آ رہا تھا اس نے سونے کے زیور پیسے اور کپڑے اٹھا رکھے تھے۔جب وہ اس نائی کے پاس سے گزرا تو اسے سکون سے لیٹے ہوئے دیکھا تو رک کر بولا۔۔۔ اوئے ساڈی ہر چیز اجڑ گئی اے. ساڈی جان تے بنی اے، تے تو ایتھے سکون نال لیٹا ہویا ویں۔۔۔۔
یہ سن کر وہ ہنس کر بولا : لالے اج ای تے غربت دی چس آئی اے۔
جب میں نے یہ کہانی سنی تو ہنس پڑا ۔مگر پھر ایک خیال سا آیا۔
میں روز محشر والے دن کا سوچنے لگا کہ بروز حشر کا منظر بھی کچھ ایسا ہو۔ جب تمام انسانوں کا حساب قائم ہو گا۔ ایک طرف غریبوں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔ دو وقت کی روٹی، کپڑا ۔حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔
ایک طرف امیروں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔پلازے. دکانیں. فیکٹریاں. گاڑیاں. بنگلے. سونا چاندی ۔ ملازم ۔ پیسہ ۔حلال حرام۔ عیش و آرام ۔ زکواۃ ۔حقوق اللہ۔ حقوق العباد...
اتنی چیزوں کا حساب کتاب دیتے ہوئے پسینے سے شرابور اور خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہو گے۔
دوسری طرف غریب کھڑے ان کو دیکھ رہے ہو گے چہرے پر ایک عجیب سا سکون اور شاید دل ہی دل میں کہہ رہے ہو گے...
اج ای تے غربت دی چس آئی اے...