Posted by : Social media masti Tuesday, November 27, 2018


اسے یہاں آۓ دو ہفتہ ہونے کو آے تھے۔ بی جان کے ساتھ اب اس کی اچھی خاصی دوستی ہو گی تھی۔
بی جان کے کہنےپر وہ ایک بار گھر جا کر ماما اور رمشا۶ سےمل کر آگی تھی اور شہلا کو بی جان کی شفیق اور سادہ طبعیت کے بارے میں سن کر کچھ تسلی ہوئی تھی۔حلیمہ اپنے گاؤں واپس چلی گی تھی۔
زمل بی جان کو ناشتہ کروا کر اب اخبار پڑھ کر سنا رہی تھی۔
”بسس زمل۔۔ یہ سب سن کر دل گھبرانے لگتا ہے۔“بی جان نے آدھا اخبار سن کر ہی اسے روک دیا تھا۔
”بی جان آپ اتنی جلدی کیوں پریشان ہو جاتی ہیں۔ یہ سب باتیں تو اب ہمارے معاشرے میں عام ہیں “ زمل نے اخبار تہہ کر کہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔
”بس بیٹا دل کمزور ہو گیا ہے عمر کا تقاضا ہے یہ سب سن کر دل پریشان ہو جاتا ہے“ بی جان نےسنجیدگی سے کہا۔۔
”اب اتنی بھی بوڑھی نہیں ہیں آپ جتنا آپ خود کو سمجھتی ہیں“ زمل۔نےشریر انداز میں کہا۔
”کبھی کبھی بالکل شیر جیسی باتیں کرتی ہو۔ وہ بھی مجھے ایسے ہی چھیڑتا ہے۔“ بی جان نے مسکرا کر کہا۔۔۔
”دیکھ لیں دو لوگ کہہ رہیں ہیں تو جھوٹ تو نہیں نا بول رہے ہم۔ اب مان لیں کہ آپ بوڑھی نہیں ہیں“ زمل نے اٹھ کر کھڑکی کے پردےبرابر کیے۔
بی جان نے مسکرا کر سامنے کھڑی بے حد نازک اور دلکش سی لڑکی کو دیکھا۔ جو بالوں کا جوڑا بناۓ بے حد سادہ سے حلیے میں بھی بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔
”بی جان ایسے کیا دیکھ رہی ہیں“ زمل نے بی جھجک کر پوچھا۔
ہوں ۔ کچھ نہیں ۔ دو دن ہو گےشیر سے بات نہیں ہوئی پتا نہیں کہاں مصروف ہے۔“ انہوں نے جلدی سے بات بنائی۔۔
”آپ کہیں تو فون ملا دوں بات کر لیں“ زمل نے فورأ مشورہ دیا۔
”کیا پتا مصروف ہو فارغ ہو کر خود ہی بات کرلے گا۔“
”میں ہوں ناں آپ کے پاس بی جان کیوں أداس ہوتی ہیں “زمل ان کے پاس بیڈ پر بیٹھ گی۔
”بی جان نے پیار سے اس کے نرم وناذک ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا
”تم بالکل مجھے شیر کی طرح ہی عزیز ہو“ ان کو اس معصوم سی لڑکی سے عجیب سا انس ہوتا جا رہا تھا۔۔
”آپ شیر کو بہت مس کرتی ہیں“ زمل نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا۔۔۔
”ہاں۔۔ وہ ہے ہی ایسا کہ اسے یاد کیا جاۓ“ بی جان کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی۔۔۔
”میں شیر سے بہت جیلس ہو رہی ہوں بی جان“ زمل نے مصنوعی خفگی سے کہا۔۔۔
کیوں“ بی جان حیران ہوئيں۔۔۔
”کیونکہ آپ ہر وقت ان کو یاد کرتی ہیں۔۔۔ میں آپ کے سامنے ہوں اور میری کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔۔۔ آپ صرف کہنے کو میری بی جان بنی ہیں۔۔۔ پیار بس شیر سے ہی کرتی ہیں“ زمل نے شکوہ کیا۔۔۔
”ارے نہیں میں تم سے بھی اتنا ہی پیار کرتی ہوں“بی جان نے محبت سے اس کے ہاتھ تھامے۔۔۔
بی جان نے شیر کے لیے ہمیشہ ہادیہ کو سوچا تھا اور اب زمل کو دیکھ کر شیر کا خیال آجاتا ان کے بے حد ہنڈسم اور سوبر سے پوتےکے لیے یہ لڑکی ان کے دل کو بھا گئی تھی۔
اتنے میں شیر کی کال آئی تو بی جان سب کچھ بھول کر اس سے باتوں میں مگن ہوگی تھی۔ زمل وہیں بیٹھی بی جان کی باتیں سنتی رہی۔ پھر بی جان نے فون بند کر کے زمل کو سکائپ آن کرنے کو کہا۔
زمل نے لیپ ٹاپ بی جان کی گود میں رکھا اور سکائپ آن کر دیا۔ اور خود اٹھ کر کمرے سے باہرنکل گی۔۔۔۔
”پتا ہے زمل آج مجھ سے لڑ رہی تھی کہ آپ شیر سے ذیادہ پیار کرتی ہیں“ بی جان اسکرین پر نظریں جماۓ بولیں۔۔۔
پھر آپ نے کیا کہا“ اس نے اشتیاق سے پوچھا۔۔۔
”میں نے کہہ دیا کہ میں جتنی محبت اپنے شیر سے کرتی ہوں اتنی ہی تم سے کرتی ہوں۔۔ پھر جا کر مانی ہے“ بی جان نے ہنس کر بتایا۔۔۔تو شیر بھی مسکرا دیا۔۔۔
”بی جان میں جیلس ہو رہا ہوں اب یہ زمل کہیں آپ کو مجھ سے چھین ہی نا لے۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں واپس آؤں تو آپ مجھے اپنا پوتا ماننے سے انکار کر دیں کہ میری صرف ایک ہی پوتی ہے“ وہ بی جان کو خوش دیکھ کر مطمئين ہو گیا تھا وہ جان گیا تھا کہ زمل ان کا بے حد خیال رکھتی ہے۔۔۔
ایک تو تم دونوں ناں۔۔۔ بالکل ایک جیسے ہو“
وہ کیسے“وہ متجسس ہوا۔۔۔۔
”تم دونوں کی سوچ ،خیالات سب ملتا ہے اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ وہ بالکل تمہاری طرح ضدی ہے“بی جان اب اسے تفصیل سے ہر بات بتا رہی تھیں۔۔۔
بی جان کتنی دیر تک شیر سے باتیں کرتی رہی جس میں ذیادہ تر ذکر زمل کا ہی تھا جسے وہ سن کر مسکرا دیتا۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔ ۔
رات کے آٹھ بج رہے تھے حیدر یونیورسٹی سے آکر اسائمنٹ پر کام کر رہا تھا جو تین دن بعد جمع کروانی تھی۔ اسائمنٹ بناتے کب اس کی آنکھ لگی اسے خبر ہی نہ ہوئی۔
آنکھ کھلی وال کلاک پر نظر پڑی تو ہڑبڑاتا ہوا اٹھا اسے کافی کی شدید طلب ہو رہی تھی۔کھڑکی سے پردہ ہٹایاتو باہر ہلکی پھلکی بارش ہو رہی تھی چابی اٹھائی چھاتا پکڑا اورپارٹمنٹ سے باہر آگیا۔
اس کا ارادہ پیدل قریبی کافی شاپ پر چانے کا تھا۔ راستے میں اس نے ایک دو ضروری کالز کی اور کافی شاپ پر آکر کافی آڈر کی۔
کھڑکی کے قریب پڑے ٹیبل کی طرف آیا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ ہال میں نظریں دوڑائی تو تین چار ٹیبلز ہی خالی تھے باقی ٹیبلز پر کوئی بیٹھا سینڈوچ کھا رہا تھا تو کوئی کافی سے لطف اندوز ہو رہا تھا وہ بھی اپنی کافی کا انتظار کرنے لگا۔ سامنے ٹیبل پر بیٹھی تین انگریزلڑکیاں کسی بات پر قہقہہ لگا کر ہنسی تھیں۔ سامنے بلیک جیکٹ میں ملبوس لڑکی کی شہد آنکھییں اسے کسی کی یاد میں مبتلا کر گی وہ مبہوت سا اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔
ویٹرنے اسکی کافی ٹیبل پر رکھی تو وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اپنے خیالوں کو جھٹکتا کافی کوگھونٹ گھونٹ پیتا کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
بارش اب قدرے تیز ہو چکی تھی۔ کچھ لوگ سامنے شیڈز کے نیچے کھڑے بارش کے رکنےکاانتظار کر رہے تھے۔ کچھ چھاتا پکڑے آجا رہے تھے سڑک پر کہیں کہیں ہلکا ہلکا پانی جمع ہو چکا تھا۔ سامنے شراب کی بوتل کو منہ لگاۓ پچیس چھبیس سال کا نوجوان لڑکھڑاتا ہوا سڑک پر ادھر ادھر ہچکولے کھاتا چل رہا تھا حیدر اسے افسوس سے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔پھر حیدر کی نظریں بائيں جانب جاتےوجود پر پڑی تو وہ ششددرہ گیا۔
نیلے کوٹ کی جیب میں ایک ہاتھ ڈالے اور دوسرےسےچھاتا پکڑے وہ بڑے احتیاط سے قدم رکھتی آگے بڑھ رہی تھی ۔یہ نیلہ کوٹ اور یہ پنک چھتری وہ اچھی طرح سے پہچانتا تھا کہ کس کی تھی زمل اکثر سردیوں میں یہ کوٹ اور جب بارش ہوتی یہ چھاتا لے کر آتی تھی۔
مگر وہ دھوکہ نہیں کھا سکتا تھا اس کے لیئر میں کٹے کالے بال وہ ہزاروں میں پہچان سکتا تھا کہ وہ لڑکی کوئی اور نہیں زمل تھی۔ تیر کی سی تیزی سے اٹھا اورتقریبأ بھاگتا ہوا باہر نکلا۔۔۔۔۔
وہ اب کافی آگے جا چکی تھی حیدر تیزی سے اس کے پیچھے لپکا۔
راستے میں وہ کسی سے بری طرح ٹکرایا اور بڑی مشکل سے گرتے گرتے بچا۔ لمبے بالوں والا وہ انگریز اسے گالیاں بکنے لگا مگر اسے کچھ سنائی دیتا تو وہ کچھ کہتا وہ تیزی سے اگے بڑھا اورخود سے دور جاتی زمل کوپکارنے لگا مگر اسے شاید سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ ہانپتے ہوۓ اس تک پہنچا اور پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
زمل“ اس نے اپنی سانسوں کو ہموار کرتے ہوۓ کہا ۔۔۔
اس نے مڑ کر دیکھا تو حیدر کو اپنا دل ڈھوبتا ہوا محسوس ہوا۔وہ زمل نہیں کوئی اور لڑکی تھی اس نے سوالیہ نظروں سے حیدر کو دیکھا۔۔۔
سوری“ کہتا حیدر سر پکڑ کر واپس مڑا وہ اپنی اس کیفیت کو سمجھنے سے قاصر تھا وہ اب زمل کو دیکھنے کے لیے یوں خوار ہو رہا تھا اس کا دل اس کے بس میں نہیں تھا۔
اس نے پہلی بار خود سے اعتراف کیا کہ وہ زمل سے محبت کرنے لگا تھا اس کے سحر میں بری طرح سے مبتلا ہو چکا تھا۔وہ رات گے تک سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا وہ زمل کو لے کر الجھتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ آج وہ بے بسی کی انتہا پر تھا۔۔۔
تیری آنکھوں نے آنکھوں کا سسکنا بھی نہیں دیکھا
محبت بھی نہیں دیکھی، تڑپنا بھی نہیں دیکھا

نہیں دیکھا ابھی تم نےمیری تنہائی کا منظر
کہ اپنے آپ سے میرا الجھنا بھی نہیں دیکھا

ابھی تم نے تمہارے بن میری حالت نہیں دیکھی
ابھی تم نے میرا غم میں بلکنا بھی نہیں دیکھا

ابھی تم نے دغاؤں میں میرے آنسو نہیں دیکھے
خدا کے سامنے میرا سسکنا بھی نہیں دیکھا

ابھی تم نے نہیں دیکھا کوئی منظر جدائی کا
ابھی پتوں کا شاخوں سے بکھرنا بھی نہیں دیکھا

۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔
فجر کی نمازادا کرکے وہ کمرےسے باہر نکل آئی۔ اندھیرا ابھی پوری طرح سے چھٹا نہیں تھا۔ سردی بڑھنے لگی تھی۔
زمل نے شال أڑھ رکھی تھی راہداری میں چلتے ہوۓ وہ اس بند دروازے تک آئی تھی وہ شیر کا کمرہ تھا۔ بی جان سے اس کی اتنی تعریفیں سن کروہ اس ان دیکھے شخص سے عجیب سا لگاؤ محسوس کرتی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ اس کے کمرے میں جاۓ اور اس کا کمرہ اندر سے دیکھے۔
مگر اسے یوں کمرے میں بغیر اجازت جانا مناسب نہ لگا تو سیڑھیاں اتر کروہ بی جان کے کمرے تک آئی۔
دروازہ دھکیل کر اندر آئی تو بی جان نماز سے فارغ ہو کر تسبیح پڑھنے میں مشغول تھیں۔
بی جان کو سلام کیا اور ان کے قریب ہی بیٹھ گی۔ بی جان نے تسبیح مکمل کر کے آنکھیں کھولی بی جان نے کچھ پڑھ کر اس کے چہرے پر پھونک ماری زمل مسکرا دی۔
” چلیں بی جان“ زمل ایک دم اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔
کہاں جانا ہے“ بی جان حیران ہوئیں
آج ہم واک کریں گے چلیں لان میں چلتے ہیں“ اس نے فورأ کہا۔
”زمل مجھ سے اب اتنا نہیں چلا جاتا کہ واک کر سکوں“
”کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ کہ ٹانگوں میں درد ہے اب بوڑھی ہو گی ہوں یہ وہ ۔۔۔جانا تو پڑے گا۔“ زمل نے ان کی بات کاٹی۔

”زمل کیوں ضد کر رہی ہوان بوڑھی ہڈیوں میں اب اتنی جان نہیں ہے“ وہ اس کی اس اچانک فرمائش پر کچھ پریشان ہوئیں تھیں۔۔۔
”میں آج کچھ نہیں سنوں گی چلیں ذیادہ چلیں گے نہیں مگر فریش ہوا میں سانس لیں تو بھی طبعیت میں بہتری آتی ہے“ زمل آج ایسے ٹلنے والی نہیں تھی۔۔
ناچار ان کی زمل کی بات ماننا پڑی۔ اور بی جان ایک دو چکر میں ہی بری طرح ہانپ رہیں تھی۔ زمل ان کو لے کرلان میں رکھی کرسیوں کی طرف لے آئی۔
”افف بہت ضدی ہو تم۔ بالکل شیر جیسی وہ بھی کوئی بات کہہ دے تو پوری کروا کر ہی دم لیتا ہے۔“ بی جان نے سامنے لگی بیل کو دیکھا اب کافی پھیل چکی تھی۔
”اب ہم روز صبح آیا کریں گے۔“ زمل نےدھماکہ کیا۔
”نہیں بھئ کوئی اور سزادے دو یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔“ انہوں نے بڑی مشکل سے کھینچ کر سانس لیا۔
”کمرے میں رہ رہ کر آپ بالکل ہی بستر کی ہو کر رہ گئیں ہیں۔ باہر نکلیں گی تو دیکھیے گا کتنی جلدی ٹھیک ہوجائيں گیں“ زمل نےدلیل دی۔۔۔
” شیر ہوتا تھا تو شام کو یہیں بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کیا کرتے تھے جب سے وہ گیا تو“ بی جان نےبات ادھوری چھوڑ دی۔
زمل جانتی تھی کہ بی جان اب شیر کو مِس کرتی ہیں۔ اس لیے اب ہر بات میں شیر کا ذکر ہوتا تھا اور پھر أداس ہو جاتیں تھیں۔۔۔۔
”چھوڑیں یہ سب یہ بتائیں کےکیسا لگا صبح صبح یہاں آکر۔“ زمل نے تجسس سے پوچھا
”اچھا لگا ہے“ انہوں نے مسکرا کرزمل کو دیکھا جو بالوں کو کیچر میں جکڑے شال لپٹے ان کے سامنے بیٹھی تھی دو آوارہ لٹیں اس کے چہرے پر جھول رہیں تھیں
وہ اب لان میں لگے درختوں کو دیکھنے لگی۔ ہر طرح کا درخت اور پودے لان میں لگے تھے۔
”شیر کا شوق ہے یہ“ بی جان نے خوش دلی سے بتایا۔
زمل نے سوالیہ نظروں سے بی جان کی طرف دیکھا۔
”یہ سب کچھ شیر نے اپنے ہاتھوں سے لگایا ہے۔ اسے پودوں سے بہت لگاؤ ہے۔ “ بی جان کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔
”جب بھی کہیں جاتا تھا تو واپسی پر بیج لے آتا اور کہتا بی جان اسے اپنے لان میں لگائیں گے۔ کئ پودے ہم دونوں نے مل کر لگاۓ ہیں“ بی جان اسے ہر پودے کے بارے میں بتانے لگی کون ساشیرنے کب اور کیسے لگایا تھا۔
”پتا ہے زمل اس کے شوق بچپن سے ہی عام بچوں جیسے نہیں تھے۔اس کی کبھی مجھے کوئی شکایت نہیں ملی کہ اس نے کبھی کسی کو مارا پیٹا ہو۔ بہت ہی ٹھنڈے اور دھیمے مزاج کا ہے میرا شیر“بی جان اسے بتاتی چلی گی۔
”جس کی تربیت آپ نے کی ہو بی جان اس انسان میں خامیاں کیسے ہو سکتی ہیں“ زمل نے اعتراف کیا۔
”بس اللہ کا کرم ہے کہ اس نے مجھےسرخرو کر دیا ورنہ سارہ کو کیا منہ دکھاتی۔“ بی جان نے محبت سے زمل کو دیکھا۔
”اسلام علیکم“ ذمل نے چونک کر پیچھے دیکھا تو معیز سر کو دیکھ کر فورأ اٹھ کھڑی ھوئی۔۔
۔
اسلام علیکم سر“۔ زمل نے بوکھلا کر سلام کیا۔

جو سفید ٹریک سوٹ پہنے کھڑے تھے۔ ان کی کھڑی مغرور ناک اور بلا کی بے نیازی نے ان کی شخصیت کو ایک متاثر کن وقار بخشا دیا تھا۔
”بیٹھیں بیٹھیں مس زمل۔۔ آپ کیوں کھڑی ہوگیں ہیں۔“انہوں نے ہاتھ ٹراؤز کی جیب میں ڈالے۔
آپ بیٹھیں سر“ زمل نے جلدی سے کہا۔
وہ بی جان کے ساتھ والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گے۔
”واہ مس زمل ماننا پڑے گا۔ آپ بی جان کو باہر لے لآئیں ہیں“ انہوں نے بے تکلفی سے کہاتو زمل نے مسکرانے پر اکتفا کیا۔۔۔
”بی جان طبعیت کیسی ہے آپ کی اب؟“ وہ اب بی جان سے مخاطب تھے۔ ۔۔۔
ذمل کچھ دیر وہاں بیٹھ کر پھر أٹھ کر اندر آگی ۔ وہ دونوں ماں بیٹا اب باتوں میں مصروف تھے۔زمل کو معیز کو دیکھ کر نجانے کیوں لگتا کہ وہ ان کو پہلے بھی کہیں دیکھ چکی تھی مگر کہاں اسے بہت سوچنےپر بھی یاد نہیں آیا۔ ۔۔۔
وہ کتنی دیر الجھ کرسوچتی رہی پر کچھ یاد نہ آیا تو سر جھٹک کر بیڈ پر پڑی چادر کوتہہ کرنے لگی۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آج جیسے ہی وہ کلاس میں داخل ہوا ڈیزی نے ہاتھ ہلایا اور اشارے سے اس بلایا۔حیدر نے حیرت سے اسے دیکھا جو مسکرا کر اپنے ساتھ والی خالی کرسی کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ حیدر اس کے ساتھ والی کرسی پرخاموشی سے بیٹھ گیا۔
ہاۓ“ اس نے خوش دلی سے کہا
ہاۓ“ حیدر نے نوٹس فائل سے نکال کر ٹیبل پر رکھے۔
کیسے ہو“ اگلا سوال آیا۔۔۔
۔۔
ٹھیک ہوں“ اس نے مختصر جواب دیا۔

”میرا حال بھی پوچھ سکتے ہو مجھے برا نہیں لگے گا“ وہ دوستانہ انداز میں گویا ہوئی
حیدر نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا جو آج سنہری بالوں کو اونچی ٹیل میں باندھے مسکرا کر اس کو ہی دیکھ رہی تھی اسے نظر انداز کرتے سامنے دیکھنے لگا۔۔
۔ اتنے میں سرمارگٹ آگے اور وہ خاموشی سے لیکچر نوٹ کرنےلگا۔ تیس منٹ کے لیکچر میں اس نے اس ڈیزی نامی لڑکی کو سامنے دیکھتے اور نہ ہی لیکچر نوٹ کرتے دیکھا۔
وہ مسلسل پینسل سے سر مارگٹ کی مختلف شکلیں بناتی رہی۔اور منہ کھولے جمائياں لیتی رہی۔۔۔
”یار تم یہ فضول کی بکواس سن کر پکتے نہیں ہو“ سر مارگٹ کے جاتے ہی اس نے جھٹ سے پوچھا۔
نہیں۔ “ اس نے اپنی چیزیں سمیٹی اور اٹھ کھڑا ہوا
”چلو باہر کافی پینے چلتے ہیں“ وہ اب اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔
مجھے ابھی نوٹس بنانے ہیں۔ سوری میں کافی پینے نہیں جا سکتا میرے پاس ٹائم نہیں ہے“اس نے بڑے سلیقے سے انکار کیا۔ ۔۔
”مجھے تو پینی ہے اور تمہیں میرے ساتھ تو جانا پڑے گا۔
میں اور کچھ نہیں سنوں گی ہم دونوں جا رہے ہیں“ اس نے جلدی سے کہا
لیکن ڈیزی مجھے۔۔ ۔“
”لیکن ویکن کچھ نہیں۔ ۔ گھبراؤ مت بل میں پے کر دوں گی“وہ ہر صورت میں اسے ساتھ لے جانے پر تلی ہوئی تھی۔۔
۔
”ایسی بات نہیں میں نے بتایا ہے کہ مجھے نوٹس بنانے ہیں“

”نوٹس تم بعد میں بھی بنا سکتے ہو۔اب ہماری دوستی ہو چکی ہے اتنا حق تو بنتا ہے میرا کہ تم میرے ساتھ کافی پینے چلو“ حیدر اس کی بات سن کر حیران ہوا جو بڑی بے تکلفی سے ایک ملاقات کے بعد اسے دوست کہہ رہی تھی۔
”پھر کسی دن چلیں گےکافی پینے مگر آج نہیں آج بالکل ٹائم نہیں ہے“ وہ اسے ٹالنےکے موڈ میں تھا
” میں اچھی طرح سمجھ رہی ہوں کہ تم مجھے ٹال رہے ہو مگر میں اتنی آسانی سے ٹلنے والی نہیں ہوں ہم آج ہی جا رہے ہیں۔۔ “حیدر کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ایسے ٹلنے والی نہیں تھی مگر حیدر کو اس کے ساتھ کہیں جانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
” اور کسی لڑکی کی آفر کو یوں رد نہیں کرتے۔ اتنے بھی مینرزنہیں ہے تم میں۔ ۔ ۔۔ اب چلو“ وہ اس کا بازو پکڑے آگے بڑھی۔ حیدر نے نرمی سے اپنا بازو اس کے ہاتھوں سے الگ کیا اور خاموشی سے اس کے ساتھ چلنے لگا وہ خوامخواہ گلے پڑ رہی تھی۔۔۔
”پتاہے حیدر جب میں نے تمہیں دیکھا تھا تو میں اپنی نظریں نہیں ہٹا پائی تھی۔۔۔“ وہ بڑے موڈ میں بولی۔۔
اچھا“ حیدر کو اس کی باتوں میں ذرا دلچسپی نہیں تھی۔۔۔
”یہ کیا بات ہوئی۔۔۔ میں تمہاری تعریف کر رہی ہوں تم ”اچھا کہہ رہے ہو۔۔۔“ اس نے خفگی سے حیدر کو دیکھا۔۔۔ وہ بلیک شرٹ کی آستینوں کو کہنی تک فولڈ کیے بے دلی سے اس کے ساتھ چل رہا تھا۔۔۔
تو اور کیا کہنا چاہیے مجھے؟“ اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔۔۔
”تمہیں خوش ہونا چاہیے۔۔ اور اسی خوشی میں میری بھی تعریف کرنی چاہیے“ اس کی بات سن کر حیدر دھیرے سے مسکرا دیا۔۔۔
”شکر ہے تم ہنستے بھی ہو۔۔ اب اسی خوشی میں میں تمہیں اچھی سی کافی پلاتی ہوں۔“ وہ اسے مسکراتا دیکھ کر بچوں کی طرح خوش ہوئی۔۔۔

Leave a Reply

Subscribe to Posts | Subscribe to Comments

- Copyright © Social Media Masti - Blogger Templates - Powered by Blogger - Designed by Johanes Djogan -