Posted by : Social media masti
Saturday, November 3, 2018
اپنا پیٹ خالی رہ جائے لیکن چھوٹی بہن کو بھوکا نہیں رکھ سکتے۔
تحریر:۔ محمد صدیق (آج کی آپ بیتی)
اگاپنا پیٹ خالی رہ جائے لیکن چھوٹی بہن کو بھوکا نہیں رکھ سکتے۔
تحریر:۔ محمد صدیق (آج کی آپ بیتی)
اگر بات اچھی لگے تو اسے دوسروں تک بھی شیئر کریں کیا پتا اللہ کس کے ہاتھوں سے دوسروں کی زندگی اور آخرت کو بدل دے۔
معزز دوستوں جو بات میں لکھنے جا رہا ہوں یہ کوئی کہانی یا قہاوت نہیں بلکہ آج یکم نومبر بروز جمعرات صبح تقریباً آٹھ بجنے کے قریب کا واقعہ ہے کہ میں معمول کے مطابق نیوسٹی سیکٹر ڈی اور بن خرماں کے درمیان اپنے موٹر سائیکل پر سفر کر کے اپنی ڈیوٹی پر جا رہا تھا کہ کہ اونچی آواز میں بھائی بھائی کی صدا آنے لگی تو میں نے دیکھا ایک پٹھا ن ک ننھا سا بچہ کچرے کا بیگ اٹھائے سامنے آگیا اور لفٹ مانگی ۔میں نے لفٹ دے دی اور راستے میں اس سے اس کے بارے میں پوچھا کہ وہ یہ کام کیوں کرتا ہے اور پڑھائی کیوں نہیں کرتا تو میرے پوچھنے پر اس معصوم بچے نے کہا بھائی جی میں سکول میں پڑھتا تھا کہ ابو کی ٹانگ ٹوٹ گئ اور جس کی وجہ سے مجھے پڑھائی چھوڑنی پڑی اور پھر کام کاج پر آنا پڑھا۔مزید پوچھنے پر اس نے بتایا کہ دن میں 3سو روپے کما لیتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر راشن گھر لے کر جاتا ۔اس کی عمر تقریباً 12 سے 15 سال کے درمیان تھی اس سے چھوٹا ایک بھائی اور تین بہنیں تھیں جن کا خرچا اس کے ذمہ تھا۔اس بچے سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی قابلیت ظاہر ہو رہی تھی۔دل نہ چاہا کہ اس کو سکول میں داخل کروا کہ آوں پھر خیال آیا کہ سکول نہ جانے کہ جو وجہ ہے پہلے اس کو حل کرنا ضروری ہے ۔ابو کا نمبر مانگنے پر اس نے بولا کبھی فون کیا ہی نہیں اور روزانہ اسی جگہ سے کچرا کا بیگ لے کر سامان اکٹھا کرتا اور پھر دوسرے پہر نانگی ایریا کی طرف جاتا ہے اور وہاں سے آٹا اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء گھر لے کر جاتا ہے۔دوستوں اس ننھے کا جذبہ اپنی بہن کے لیے دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اتنی سے عمر میں بھی اتنی بڑی سوچ کہ خود بھوکا رہ سکتا ہوں لیکن اپنی بہن کو دودھ نہ ملنے پر روتا نہیں دیکھ سکتا۔میں اپنی بہنوں سے بہت پیار کر تا ہوں اور ان کے لیے پڑھائی چھوڑ کر کام کرتا ہوں کہ گھر کا نظام چلے۔مزید یہ کہ گھر میں بجلی بھی نہیں لگی کہ بل نہیں ادا کر سکتے۔جلدی میں اس کا ایڈریس پوچھنا بھول گیا لیکن کل اس سے دوبارہ ملنے کا بولا تھا کہ ابو کا نمبر لاو پھر مخیر حضرات کے ذریعے اس کی تعلیم و ضروریات زندگی کا کوئ مناسب بندوبست کیا جا سکے۔دوستوں یہ ایک ننھے گل خان کی کہانی نہیں بلکہ اس ملک میں بسنے والے بے شمار سفید پوش لوگوں کی کہانیاں ایسی ہی ہیں فرق صرف اتنا سا ہے کہ و منظر عام پر نہیں آتی اور ان کی زندگی کا چراغ گل ہو جاتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا اپ میرے کہنے پر ان کی مدد کریں لیکن اتنا ضرور کہنا چاہوں گا جتنی ہو سکے اور جنتا اللہ نے آپکو آج دیا ہوا ہے اس میں سے اسکے بندوں پر بھی خرچ کیجئے شاید کسی غریب کے گھر کے چولے کے ساتھ اس کی زندگی اور بہتر مستقبل سے کئی مزید گھروں کے چولے بھی جل جائیں۔
ہم کتنا پیسہ اپنی ذاتی خواہشات پر لگا دیتے ہیں لیکن کسی غریب کی مدد کے لیے ہمارے ہاتھ اور حالات تنگ کیوں ہو جاتے ہیں۔کیوںوں تک بھی شیئر کریں کیا پتا اللہ کس کے ہاتھوں سے دوسروں کی زندگی اور آخرت کو بدل دے۔
معزز دوستوں جو بات میں لکھنے جا رہا ہوں یہ کوئی کہانی یا قہاوت نہیں بلکہ آج یکم نومبر بروز جمعرات صبح تقریباً آٹھ بجنے کے قریب کا واقعہ ہے کہ میں معمول کے مطابق نیوسٹی سیکٹر ڈی اور بن خرماں کے درمیان اپنے موٹر سائیکل پر سفر کر کے اپنی ڈیوٹی پر جا رہا تھا کہ کہ اونچی آواز میں بھائی بھائی کی صدا آنے لگی تو میں نے دیکھا ایک پٹھا ن ک ننھا سا بچہ کچرے کا بیگ اٹھائے سامنے آگیا اور لفٹ مانگی ۔میں نے لفٹ دے دی اور راستے میں اس سے اس کے بارے میں پوچھا کہ وہ یہ کام کیوں کرتا ہے اور پڑھائی کیوں نہیں کرتا تو میرے پوچھنے پر اس معصوم بچے نے کہا بھائی جی میں سکول میں پڑھتا تھا کہ ابو کی ٹانگ ٹوٹ گئ اور جس کی وجہ سے مجھے پڑھائی چھوڑنی پڑی اور پھر کام کاج پر آنا پڑھا۔مزید پوچھنے پر اس نے بتایا کہ دن میں 3سو روپے کما لیتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر راشن گھر لے کر جاتا ۔اس کی عمر تقریباً 12 سے 15 سال کے درمیان تھی اس سے چھوٹا ایک بھائی اور تین بہنیں تھیں جن کا خرچا اس کے ذمہ تھا۔اس بچے سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی قابلیت ظاہر ہو رہی تھی۔دل نہ چاہا کہ اس کو سکول میں داخل کروا کہ آوں پھر خیال آیا کہ سکول نہ جانے کہ جو وجہ ہے پہلے اس کو حل کرنا ضروری ہے ۔ابو کا نمبر مانگنے پر اس نے بولا کبھی فون کیا ہی نہیں اور روزانہ اسی جگہ سے کچرا کا بیگ لے کر سامان اکٹھا کرتا اور پھر دوسرے پہر نانگی ایریا کی طرف جاتا ہے اور وہاں سے آٹا اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء گھر لے کر جاتا ہے۔دوستوں اس ننھے کا جذبہ اپنی بہن کے لیے دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اتنی سے عمر میں بھی اتنی بڑی سوچ کہ خود بھوکا رہ سکتا ہوں لیکن اپنی بہن کو دودھ نہ ملنے پر روتا نہیں دیکھ سکتا۔میں اپنی بہنوں سے بہت پیار کر تا ہوں اور ان کے لیے پڑھائی چھوڑ کر کام کرتا ہوں کہ گھر کا نظام چلے۔مزید یہ کہ گھر میں بجلی بھی نہیں لگی کہ بل نہیں ادا کر سکتے۔جلدی میں اس کا ایڈریس پوچھنا بھول گیا لیکن کل اس سے دوبارہ ملنے کا بولا تھا کہ ابو کا نمبر لاو پھر مخیر حضرات کے ذریعے اس کی تعلیم و ضروریات زندگی کا کوئ مناسب بندوبست کیا جا سکے۔دوستوں یہ ایک ننھے گل خان کی کہانی نہیں بلکہ اس ملک میں بسنے والے بے شمار سفید پوش لوگوں کی کہانیاں ایسی ہی ہیں فرق صرف اتنا سا ہے کہ و منظر عام پر نہیں آتی اور ان کی زندگی کا چراغ گل ہو جاتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا اپ میرے کہنے پر ان کی مدد کریں لیکن اتنا ضرور کہنا چاہوں گا جتنی ہو سکے اور جنتا اللہ نے آپکو آج دیا ہوا ہے اس میں سے اسکے بندوں پر بھی خرچ کیجئے شاید کسی غریب کے گھر کے چولے کے ساتھ اس کی زندگی اور بہتر مستقبل سے کئی مزید گھروں کے چولے بھی جل جائیں۔
ہم کتنا پیسہ اپنی ذاتی خواہشات پر لگا دیتے ہیں لیکن کسی غریب کی مدد کے لیے ہمارے ہاتھ اور حالات تنگ کیوں ہو جاتے ہیں۔کیوں