Archive for November 2018
((((((( نورا ڈاکو ))))))))
مولانا ضیاءآللہ صاحب نےاپنی کتاب میں لکھا ، فرماتے ہیں۔
"مجھے وہاڑی کے اک گاؤں سے بڑا محبت بھرا خط لکھاگیا کہ مولانا صاحب ہمارے گاؤں میں آج تک سیرة النبى پر بیان نہی ہوا۔ ہمارا بہت دل کرتا ہے ،آپ ہمیں وقت عنائیت فرما دیں ہم تیاری کر لیں گے ۔ " میں نے محبت بھرے جزبات دیکھ کرخط لکھ دیا کہ فلاں تاریخ کو میں حاضر ہو جاؤں گا۔
دیئے گئے وقت پر میں فقیر ٹرین پر سے اتر کر تانگہ پر بیٹھ کرگاؤں پہنچ گیا تو آگے میزبانوں نے مجھے ھدیہ پیش کر کے کہا مولانا آپ جا سکتے ہیں ہم بیان نہیں کروانا چاہتے۔ وجہ پوچھی تو بتایا کہ ہمارے گاؤں میں %90 قادیانی ہیں وہ ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں کہ نا تو تمہاری عزتیں نہ مال نہ گھربار محفوظ رہیں گے اگر سیرة النبى پر بیان کروایا تو۔
مولانا ہم کمزور ہیں غریب ہیں تعداد میں بھی کم ہیں اس لیئے ہم نہی کرسکتے۔"میں نے لفافہ واپس کردیا اور کہا بات تمہاری ہوتی یامیری ہوتی تو واپس چلا جاتا بات مدینے والے آقاﷺکی عزت کی آگئی ہے اب بیان ہوگا ضرور ۔ وہ گھبرا گئے کہ آپ تو چلے جائیں گے مسئلہ تو ہمارے لئیے ہوگا۔
میں نے کہا، "اس گاؤں کے آس پاس کوئی ڈنڈے والا ہے؟" انہوں نے بتایا کہ گاؤں سے کچھ دور نورا ڈاکو ہے پورا علاقہ اس سے ڈرتا ہے۔میں نے کہا چلو مجھے لے چلو نورے کے پاس جب ہم نورے کے ڈیرے پر پہنچے دیکھ کرنورا بولا اج کھیر اے مولوی کیوں آگئے نے ؟
میں نے کہا کہ بات حضورﷺ کی عزت کی آ گئی ہے تم کچھ کرو گے؟ میری بات سن کرنورا بجلی کی طرح کھڑا ہوا اور بولا، "میں ڈاکو ضرور آں پر بےغيرت نئی آں۔"
وہ ہمیں لے کرچل نکلا مسجد میں 3گھنٹے بیان کیا میں نے ۔ اور نورا ڈٹ کرکھڑا رہا آخر میں نورے نے یہ کہا کہ اگر کسی نےمسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھاکربھی دیکھا تو نورے سےبچ نہی سکے گا۔
میں واپس آگیا کچھ ماہ بعد میرے گھر پر اک آدمی آیا سر پرعمامہ چہرے پرداڑھی زبان پر درود پاک کاورد میں نےپوچھا، "کون ہو..؟ ". وہ رو کر بولا، "مولانا میں نورا ڈاکو آں۔جب اس دن میں واپس گھر کو لوٹا جا کر سو گیا . آنکھ لگی ہی تھی پیارے مصطفٰی کریمﷺ میری خواب میں تشریف لائے میرا ماتھا چوما اور فرمایا ، "آج تو نے میری عزت پر پہرا دیا ہے، میں اور میرا اللہﷻ تم پرخوش ہوگئے ہیں۔ اللہﷻ نے تیرے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیئے ہیں."
مولانا صاحب اس کے بعد میری آنکھ کھلی تو سب کچھ بدل چکا تھا اب تو ہر وقت آنکھوں سے آنسو ہی خشک نہی ہوتے مولانا صاحب میں آپ کاشکریہ ادا کرنے آیا ہوں آپ کی وجہ سے تو میری زندگی ہی بدل گئی میری آخرت سنور گئی ہے۔
اے میرے پیارے اللہ جو شخص بھی اس کو شیئر کرے اس کو حضور ص کی خواب میں زیارت نصیب فرما۔آمین
مولانا ضیاءآللہ صاحب نےاپنی کتاب میں لکھا ، فرماتے ہیں۔
"مجھے وہاڑی کے اک گاؤں سے بڑا محبت بھرا خط لکھاگیا کہ مولانا صاحب ہمارے گاؤں میں آج تک سیرة النبى پر بیان نہی ہوا۔ ہمارا بہت دل کرتا ہے ،آپ ہمیں وقت عنائیت فرما دیں ہم تیاری کر لیں گے ۔ " میں نے محبت بھرے جزبات دیکھ کرخط لکھ دیا کہ فلاں تاریخ کو میں حاضر ہو جاؤں گا۔
دیئے گئے وقت پر میں فقیر ٹرین پر سے اتر کر تانگہ پر بیٹھ کرگاؤں پہنچ گیا تو آگے میزبانوں نے مجھے ھدیہ پیش کر کے کہا مولانا آپ جا سکتے ہیں ہم بیان نہیں کروانا چاہتے۔ وجہ پوچھی تو بتایا کہ ہمارے گاؤں میں %90 قادیانی ہیں وہ ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں کہ نا تو تمہاری عزتیں نہ مال نہ گھربار محفوظ رہیں گے اگر سیرة النبى پر بیان کروایا تو۔
مولانا ہم کمزور ہیں غریب ہیں تعداد میں بھی کم ہیں اس لیئے ہم نہی کرسکتے۔"میں نے لفافہ واپس کردیا اور کہا بات تمہاری ہوتی یامیری ہوتی تو واپس چلا جاتا بات مدینے والے آقاﷺکی عزت کی آگئی ہے اب بیان ہوگا ضرور ۔ وہ گھبرا گئے کہ آپ تو چلے جائیں گے مسئلہ تو ہمارے لئیے ہوگا۔
میں نے کہا، "اس گاؤں کے آس پاس کوئی ڈنڈے والا ہے؟" انہوں نے بتایا کہ گاؤں سے کچھ دور نورا ڈاکو ہے پورا علاقہ اس سے ڈرتا ہے۔میں نے کہا چلو مجھے لے چلو نورے کے پاس جب ہم نورے کے ڈیرے پر پہنچے دیکھ کرنورا بولا اج کھیر اے مولوی کیوں آگئے نے ؟
میں نے کہا کہ بات حضورﷺ کی عزت کی آ گئی ہے تم کچھ کرو گے؟ میری بات سن کرنورا بجلی کی طرح کھڑا ہوا اور بولا، "میں ڈاکو ضرور آں پر بےغيرت نئی آں۔"
وہ ہمیں لے کرچل نکلا مسجد میں 3گھنٹے بیان کیا میں نے ۔ اور نورا ڈٹ کرکھڑا رہا آخر میں نورے نے یہ کہا کہ اگر کسی نےمسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھاکربھی دیکھا تو نورے سےبچ نہی سکے گا۔
میں واپس آگیا کچھ ماہ بعد میرے گھر پر اک آدمی آیا سر پرعمامہ چہرے پرداڑھی زبان پر درود پاک کاورد میں نےپوچھا، "کون ہو..؟ ". وہ رو کر بولا، "مولانا میں نورا ڈاکو آں۔جب اس دن میں واپس گھر کو لوٹا جا کر سو گیا . آنکھ لگی ہی تھی پیارے مصطفٰی کریمﷺ میری خواب میں تشریف لائے میرا ماتھا چوما اور فرمایا ، "آج تو نے میری عزت پر پہرا دیا ہے، میں اور میرا اللہﷻ تم پرخوش ہوگئے ہیں۔ اللہﷻ نے تیرے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیئے ہیں."
مولانا صاحب اس کے بعد میری آنکھ کھلی تو سب کچھ بدل چکا تھا اب تو ہر وقت آنکھوں سے آنسو ہی خشک نہی ہوتے مولانا صاحب میں آپ کاشکریہ ادا کرنے آیا ہوں آپ کی وجہ سے تو میری زندگی ہی بدل گئی میری آخرت سنور گئی ہے۔
اے میرے پیارے اللہ جو شخص بھی اس کو شیئر کرے اس کو حضور ص کی خواب میں زیارت نصیب فرما۔آمین
Noora dako نُورا ڈاکُو
اسے یہاں آۓ دو ہفتہ ہونے کو آے تھے۔ بی جان کے ساتھ اب اس کی اچھی خاصی دوستی ہو گی تھی۔
بی جان کے کہنےپر وہ ایک بار گھر جا کر ماما اور رمشا۶ سےمل کر آگی تھی اور شہلا کو بی جان کی شفیق اور سادہ طبعیت کے بارے میں سن کر کچھ تسلی ہوئی تھی۔حلیمہ اپنے گاؤں واپس چلی گی تھی۔
زمل بی جان کو ناشتہ کروا کر اب اخبار پڑھ کر سنا رہی تھی۔
”بسس زمل۔۔ یہ سب سن کر دل گھبرانے لگتا ہے۔“بی جان نے آدھا اخبار سن کر ہی اسے روک دیا تھا۔
”بی جان آپ اتنی جلدی کیوں پریشان ہو جاتی ہیں۔ یہ سب باتیں تو اب ہمارے معاشرے میں عام ہیں “ زمل نے اخبار تہہ کر کہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔
”بس بیٹا دل کمزور ہو گیا ہے عمر کا تقاضا ہے یہ سب سن کر دل پریشان ہو جاتا ہے“ بی جان نےسنجیدگی سے کہا۔۔
”اب اتنی بھی بوڑھی نہیں ہیں آپ جتنا آپ خود کو سمجھتی ہیں“ زمل۔نےشریر انداز میں کہا۔
”کبھی کبھی بالکل شیر جیسی باتیں کرتی ہو۔ وہ بھی مجھے ایسے ہی چھیڑتا ہے۔“ بی جان نے مسکرا کر کہا۔۔۔
”دیکھ لیں دو لوگ کہہ رہیں ہیں تو جھوٹ تو نہیں نا بول رہے ہم۔ اب مان لیں کہ آپ بوڑھی نہیں ہیں“ زمل نے اٹھ کر کھڑکی کے پردےبرابر کیے۔
بی جان نے مسکرا کر سامنے کھڑی بے حد نازک اور دلکش سی لڑکی کو دیکھا۔ جو بالوں کا جوڑا بناۓ بے حد سادہ سے حلیے میں بھی بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔
”بی جان ایسے کیا دیکھ رہی ہیں“ زمل نے بی جھجک کر پوچھا۔
ہوں ۔ کچھ نہیں ۔ دو دن ہو گےشیر سے بات نہیں ہوئی پتا نہیں کہاں مصروف ہے۔“ انہوں نے جلدی سے بات بنائی۔۔
”آپ کہیں تو فون ملا دوں بات کر لیں“ زمل نے فورأ مشورہ دیا۔
”کیا پتا مصروف ہو فارغ ہو کر خود ہی بات کرلے گا۔“
”میں ہوں ناں آپ کے پاس بی جان کیوں أداس ہوتی ہیں “زمل ان کے پاس بیڈ پر بیٹھ گی۔
”بی جان نے پیار سے اس کے نرم وناذک ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا
”تم بالکل مجھے شیر کی طرح ہی عزیز ہو“ ان کو اس معصوم سی لڑکی سے عجیب سا انس ہوتا جا رہا تھا۔۔
”آپ شیر کو بہت مس کرتی ہیں“ زمل نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا۔۔۔
”ہاں۔۔ وہ ہے ہی ایسا کہ اسے یاد کیا جاۓ“ بی جان کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی۔۔۔
”میں شیر سے بہت جیلس ہو رہی ہوں بی جان“ زمل نے مصنوعی خفگی سے کہا۔۔۔
کیوں“ بی جان حیران ہوئيں۔۔۔
”کیونکہ آپ ہر وقت ان کو یاد کرتی ہیں۔۔۔ میں آپ کے سامنے ہوں اور میری کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔۔۔ آپ صرف کہنے کو میری بی جان بنی ہیں۔۔۔ پیار بس شیر سے ہی کرتی ہیں“ زمل نے شکوہ کیا۔۔۔
”ارے نہیں میں تم سے بھی اتنا ہی پیار کرتی ہوں“بی جان نے محبت سے اس کے ہاتھ تھامے۔۔۔
بی جان نے شیر کے لیے ہمیشہ ہادیہ کو سوچا تھا اور اب زمل کو دیکھ کر شیر کا خیال آجاتا ان کے بے حد ہنڈسم اور سوبر سے پوتےکے لیے یہ لڑکی ان کے دل کو بھا گئی تھی۔
اتنے میں شیر کی کال آئی تو بی جان سب کچھ بھول کر اس سے باتوں میں مگن ہوگی تھی۔ زمل وہیں بیٹھی بی جان کی باتیں سنتی رہی۔ پھر بی جان نے فون بند کر کے زمل کو سکائپ آن کرنے کو کہا۔
زمل نے لیپ ٹاپ بی جان کی گود میں رکھا اور سکائپ آن کر دیا۔ اور خود اٹھ کر کمرے سے باہرنکل گی۔۔۔۔
”پتا ہے زمل آج مجھ سے لڑ رہی تھی کہ آپ شیر سے ذیادہ پیار کرتی ہیں“ بی جان اسکرین پر نظریں جماۓ بولیں۔۔۔
پھر آپ نے کیا کہا“ اس نے اشتیاق سے پوچھا۔۔۔
”میں نے کہہ دیا کہ میں جتنی محبت اپنے شیر سے کرتی ہوں اتنی ہی تم سے کرتی ہوں۔۔ پھر جا کر مانی ہے“ بی جان نے ہنس کر بتایا۔۔۔تو شیر بھی مسکرا دیا۔۔۔
”بی جان میں جیلس ہو رہا ہوں اب یہ زمل کہیں آپ کو مجھ سے چھین ہی نا لے۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں واپس آؤں تو آپ مجھے اپنا پوتا ماننے سے انکار کر دیں کہ میری صرف ایک ہی پوتی ہے“ وہ بی جان کو خوش دیکھ کر مطمئين ہو گیا تھا وہ جان گیا تھا کہ زمل ان کا بے حد خیال رکھتی ہے۔۔۔
ایک تو تم دونوں ناں۔۔۔ بالکل ایک جیسے ہو“
وہ کیسے“وہ متجسس ہوا۔۔۔۔
”تم دونوں کی سوچ ،خیالات سب ملتا ہے اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ وہ بالکل تمہاری طرح ضدی ہے“بی جان اب اسے تفصیل سے ہر بات بتا رہی تھیں۔۔۔
بی جان کتنی دیر تک شیر سے باتیں کرتی رہی جس میں ذیادہ تر ذکر زمل کا ہی تھا جسے وہ سن کر مسکرا دیتا۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔ ۔
رات کے آٹھ بج رہے تھے حیدر یونیورسٹی سے آکر اسائمنٹ پر کام کر رہا تھا جو تین دن بعد جمع کروانی تھی۔ اسائمنٹ بناتے کب اس کی آنکھ لگی اسے خبر ہی نہ ہوئی۔
آنکھ کھلی وال کلاک پر نظر پڑی تو ہڑبڑاتا ہوا اٹھا اسے کافی کی شدید طلب ہو رہی تھی۔کھڑکی سے پردہ ہٹایاتو باہر ہلکی پھلکی بارش ہو رہی تھی چابی اٹھائی چھاتا پکڑا اورپارٹمنٹ سے باہر آگیا۔
اس کا ارادہ پیدل قریبی کافی شاپ پر چانے کا تھا۔ راستے میں اس نے ایک دو ضروری کالز کی اور کافی شاپ پر آکر کافی آڈر کی۔
کھڑکی کے قریب پڑے ٹیبل کی طرف آیا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ ہال میں نظریں دوڑائی تو تین چار ٹیبلز ہی خالی تھے باقی ٹیبلز پر کوئی بیٹھا سینڈوچ کھا رہا تھا تو کوئی کافی سے لطف اندوز ہو رہا تھا وہ بھی اپنی کافی کا انتظار کرنے لگا۔ سامنے ٹیبل پر بیٹھی تین انگریزلڑکیاں کسی بات پر قہقہہ لگا کر ہنسی تھیں۔ سامنے بلیک جیکٹ میں ملبوس لڑکی کی شہد آنکھییں اسے کسی کی یاد میں مبتلا کر گی وہ مبہوت سا اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔
ویٹرنے اسکی کافی ٹیبل پر رکھی تو وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اپنے خیالوں کو جھٹکتا کافی کوگھونٹ گھونٹ پیتا کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
بارش اب قدرے تیز ہو چکی تھی۔ کچھ لوگ سامنے شیڈز کے نیچے کھڑے بارش کے رکنےکاانتظار کر رہے تھے۔ کچھ چھاتا پکڑے آجا رہے تھے سڑک پر کہیں کہیں ہلکا ہلکا پانی جمع ہو چکا تھا۔ سامنے شراب کی بوتل کو منہ لگاۓ پچیس چھبیس سال کا نوجوان لڑکھڑاتا ہوا سڑک پر ادھر ادھر ہچکولے کھاتا چل رہا تھا حیدر اسے افسوس سے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔پھر حیدر کی نظریں بائيں جانب جاتےوجود پر پڑی تو وہ ششددرہ گیا۔
نیلے کوٹ کی جیب میں ایک ہاتھ ڈالے اور دوسرےسےچھاتا پکڑے وہ بڑے احتیاط سے قدم رکھتی آگے بڑھ رہی تھی ۔یہ نیلہ کوٹ اور یہ پنک چھتری وہ اچھی طرح سے پہچانتا تھا کہ کس کی تھی زمل اکثر سردیوں میں یہ کوٹ اور جب بارش ہوتی یہ چھاتا لے کر آتی تھی۔
مگر وہ دھوکہ نہیں کھا سکتا تھا اس کے لیئر میں کٹے کالے بال وہ ہزاروں میں پہچان سکتا تھا کہ وہ لڑکی کوئی اور نہیں زمل تھی۔ تیر کی سی تیزی سے اٹھا اورتقریبأ بھاگتا ہوا باہر نکلا۔۔۔۔۔
وہ اب کافی آگے جا چکی تھی حیدر تیزی سے اس کے پیچھے لپکا۔
راستے میں وہ کسی سے بری طرح ٹکرایا اور بڑی مشکل سے گرتے گرتے بچا۔ لمبے بالوں والا وہ انگریز اسے گالیاں بکنے لگا مگر اسے کچھ سنائی دیتا تو وہ کچھ کہتا وہ تیزی سے اگے بڑھا اورخود سے دور جاتی زمل کوپکارنے لگا مگر اسے شاید سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ ہانپتے ہوۓ اس تک پہنچا اور پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
زمل“ اس نے اپنی سانسوں کو ہموار کرتے ہوۓ کہا ۔۔۔
اس نے مڑ کر دیکھا تو حیدر کو اپنا دل ڈھوبتا ہوا محسوس ہوا۔وہ زمل نہیں کوئی اور لڑکی تھی اس نے سوالیہ نظروں سے حیدر کو دیکھا۔۔۔
سوری“ کہتا حیدر سر پکڑ کر واپس مڑا وہ اپنی اس کیفیت کو سمجھنے سے قاصر تھا وہ اب زمل کو دیکھنے کے لیے یوں خوار ہو رہا تھا اس کا دل اس کے بس میں نہیں تھا۔
اس نے پہلی بار خود سے اعتراف کیا کہ وہ زمل سے محبت کرنے لگا تھا اس کے سحر میں بری طرح سے مبتلا ہو چکا تھا۔وہ رات گے تک سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا وہ زمل کو لے کر الجھتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ آج وہ بے بسی کی انتہا پر تھا۔۔۔
تیری آنکھوں نے آنکھوں کا سسکنا بھی نہیں دیکھا
محبت بھی نہیں دیکھی، تڑپنا بھی نہیں دیکھا
نہیں دیکھا ابھی تم نےمیری تنہائی کا منظر
کہ اپنے آپ سے میرا الجھنا بھی نہیں دیکھا
ابھی تم نے تمہارے بن میری حالت نہیں دیکھی
ابھی تم نے میرا غم میں بلکنا بھی نہیں دیکھا
ابھی تم نے دغاؤں میں میرے آنسو نہیں دیکھے
خدا کے سامنے میرا سسکنا بھی نہیں دیکھا
ابھی تم نے نہیں دیکھا کوئی منظر جدائی کا
ابھی پتوں کا شاخوں سے بکھرنا بھی نہیں دیکھا
۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔
فجر کی نمازادا کرکے وہ کمرےسے باہر نکل آئی۔ اندھیرا ابھی پوری طرح سے چھٹا نہیں تھا۔ سردی بڑھنے لگی تھی۔
زمل نے شال أڑھ رکھی تھی راہداری میں چلتے ہوۓ وہ اس بند دروازے تک آئی تھی وہ شیر کا کمرہ تھا۔ بی جان سے اس کی اتنی تعریفیں سن کروہ اس ان دیکھے شخص سے عجیب سا لگاؤ محسوس کرتی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ اس کے کمرے میں جاۓ اور اس کا کمرہ اندر سے دیکھے۔
مگر اسے یوں کمرے میں بغیر اجازت جانا مناسب نہ لگا تو سیڑھیاں اتر کروہ بی جان کے کمرے تک آئی۔
دروازہ دھکیل کر اندر آئی تو بی جان نماز سے فارغ ہو کر تسبیح پڑھنے میں مشغول تھیں۔
بی جان کو سلام کیا اور ان کے قریب ہی بیٹھ گی۔ بی جان نے تسبیح مکمل کر کے آنکھیں کھولی بی جان نے کچھ پڑھ کر اس کے چہرے پر پھونک ماری زمل مسکرا دی۔
” چلیں بی جان“ زمل ایک دم اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔
کہاں جانا ہے“ بی جان حیران ہوئیں
آج ہم واک کریں گے چلیں لان میں چلتے ہیں“ اس نے فورأ کہا۔
”زمل مجھ سے اب اتنا نہیں چلا جاتا کہ واک کر سکوں“
”کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ کہ ٹانگوں میں درد ہے اب بوڑھی ہو گی ہوں یہ وہ ۔۔۔جانا تو پڑے گا۔“ زمل نے ان کی بات کاٹی۔
”زمل کیوں ضد کر رہی ہوان بوڑھی ہڈیوں میں اب اتنی جان نہیں ہے“ وہ اس کی اس اچانک فرمائش پر کچھ پریشان ہوئیں تھیں۔۔۔
”میں آج کچھ نہیں سنوں گی چلیں ذیادہ چلیں گے نہیں مگر فریش ہوا میں سانس لیں تو بھی طبعیت میں بہتری آتی ہے“ زمل آج ایسے ٹلنے والی نہیں تھی۔۔
ناچار ان کی زمل کی بات ماننا پڑی۔ اور بی جان ایک دو چکر میں ہی بری طرح ہانپ رہیں تھی۔ زمل ان کو لے کرلان میں رکھی کرسیوں کی طرف لے آئی۔
”افف بہت ضدی ہو تم۔ بالکل شیر جیسی وہ بھی کوئی بات کہہ دے تو پوری کروا کر ہی دم لیتا ہے۔“ بی جان نے سامنے لگی بیل کو دیکھا اب کافی پھیل چکی تھی۔
”اب ہم روز صبح آیا کریں گے۔“ زمل نےدھماکہ کیا۔
”نہیں بھئ کوئی اور سزادے دو یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔“ انہوں نے بڑی مشکل سے کھینچ کر سانس لیا۔
”کمرے میں رہ رہ کر آپ بالکل ہی بستر کی ہو کر رہ گئیں ہیں۔ باہر نکلیں گی تو دیکھیے گا کتنی جلدی ٹھیک ہوجائيں گیں“ زمل نےدلیل دی۔۔۔
” شیر ہوتا تھا تو شام کو یہیں بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کیا کرتے تھے جب سے وہ گیا تو“ بی جان نےبات ادھوری چھوڑ دی۔
زمل جانتی تھی کہ بی جان اب شیر کو مِس کرتی ہیں۔ اس لیے اب ہر بات میں شیر کا ذکر ہوتا تھا اور پھر أداس ہو جاتیں تھیں۔۔۔۔
”چھوڑیں یہ سب یہ بتائیں کےکیسا لگا صبح صبح یہاں آکر۔“ زمل نے تجسس سے پوچھا
”اچھا لگا ہے“ انہوں نے مسکرا کرزمل کو دیکھا جو بالوں کو کیچر میں جکڑے شال لپٹے ان کے سامنے بیٹھی تھی دو آوارہ لٹیں اس کے چہرے پر جھول رہیں تھیں
وہ اب لان میں لگے درختوں کو دیکھنے لگی۔ ہر طرح کا درخت اور پودے لان میں لگے تھے۔
”شیر کا شوق ہے یہ“ بی جان نے خوش دلی سے بتایا۔
زمل نے سوالیہ نظروں سے بی جان کی طرف دیکھا۔
”یہ سب کچھ شیر نے اپنے ہاتھوں سے لگایا ہے۔ اسے پودوں سے بہت لگاؤ ہے۔ “ بی جان کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔
”جب بھی کہیں جاتا تھا تو واپسی پر بیج لے آتا اور کہتا بی جان اسے اپنے لان میں لگائیں گے۔ کئ پودے ہم دونوں نے مل کر لگاۓ ہیں“ بی جان اسے ہر پودے کے بارے میں بتانے لگی کون ساشیرنے کب اور کیسے لگایا تھا۔
”پتا ہے زمل اس کے شوق بچپن سے ہی عام بچوں جیسے نہیں تھے۔اس کی کبھی مجھے کوئی شکایت نہیں ملی کہ اس نے کبھی کسی کو مارا پیٹا ہو۔ بہت ہی ٹھنڈے اور دھیمے مزاج کا ہے میرا شیر“بی جان اسے بتاتی چلی گی۔
”جس کی تربیت آپ نے کی ہو بی جان اس انسان میں خامیاں کیسے ہو سکتی ہیں“ زمل نے اعتراف کیا۔
”بس اللہ کا کرم ہے کہ اس نے مجھےسرخرو کر دیا ورنہ سارہ کو کیا منہ دکھاتی۔“ بی جان نے محبت سے زمل کو دیکھا۔
”اسلام علیکم“ ذمل نے چونک کر پیچھے دیکھا تو معیز سر کو دیکھ کر فورأ اٹھ کھڑی ھوئی۔۔
۔
اسلام علیکم سر“۔ زمل نے بوکھلا کر سلام کیا۔
جو سفید ٹریک سوٹ پہنے کھڑے تھے۔ ان کی کھڑی مغرور ناک اور بلا کی بے نیازی نے ان کی شخصیت کو ایک متاثر کن وقار بخشا دیا تھا۔
”بیٹھیں بیٹھیں مس زمل۔۔ آپ کیوں کھڑی ہوگیں ہیں۔“انہوں نے ہاتھ ٹراؤز کی جیب میں ڈالے۔
آپ بیٹھیں سر“ زمل نے جلدی سے کہا۔
وہ بی جان کے ساتھ والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گے۔
”واہ مس زمل ماننا پڑے گا۔ آپ بی جان کو باہر لے لآئیں ہیں“ انہوں نے بے تکلفی سے کہاتو زمل نے مسکرانے پر اکتفا کیا۔۔۔
”بی جان طبعیت کیسی ہے آپ کی اب؟“ وہ اب بی جان سے مخاطب تھے۔ ۔۔۔
ذمل کچھ دیر وہاں بیٹھ کر پھر أٹھ کر اندر آگی ۔ وہ دونوں ماں بیٹا اب باتوں میں مصروف تھے۔زمل کو معیز کو دیکھ کر نجانے کیوں لگتا کہ وہ ان کو پہلے بھی کہیں دیکھ چکی تھی مگر کہاں اسے بہت سوچنےپر بھی یاد نہیں آیا۔ ۔۔۔
وہ کتنی دیر الجھ کرسوچتی رہی پر کچھ یاد نہ آیا تو سر جھٹک کر بیڈ پر پڑی چادر کوتہہ کرنے لگی۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آج جیسے ہی وہ کلاس میں داخل ہوا ڈیزی نے ہاتھ ہلایا اور اشارے سے اس بلایا۔حیدر نے حیرت سے اسے دیکھا جو مسکرا کر اپنے ساتھ والی خالی کرسی کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ حیدر اس کے ساتھ والی کرسی پرخاموشی سے بیٹھ گیا۔
ہاۓ“ اس نے خوش دلی سے کہا
ہاۓ“ حیدر نے نوٹس فائل سے نکال کر ٹیبل پر رکھے۔
کیسے ہو“ اگلا سوال آیا۔۔۔
۔۔
ٹھیک ہوں“ اس نے مختصر جواب دیا۔
”میرا حال بھی پوچھ سکتے ہو مجھے برا نہیں لگے گا“ وہ دوستانہ انداز میں گویا ہوئی
حیدر نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا جو آج سنہری بالوں کو اونچی ٹیل میں باندھے مسکرا کر اس کو ہی دیکھ رہی تھی اسے نظر انداز کرتے سامنے دیکھنے لگا۔۔
۔ اتنے میں سرمارگٹ آگے اور وہ خاموشی سے لیکچر نوٹ کرنےلگا۔ تیس منٹ کے لیکچر میں اس نے اس ڈیزی نامی لڑکی کو سامنے دیکھتے اور نہ ہی لیکچر نوٹ کرتے دیکھا۔
وہ مسلسل پینسل سے سر مارگٹ کی مختلف شکلیں بناتی رہی۔اور منہ کھولے جمائياں لیتی رہی۔۔۔
”یار تم یہ فضول کی بکواس سن کر پکتے نہیں ہو“ سر مارگٹ کے جاتے ہی اس نے جھٹ سے پوچھا۔
نہیں۔ “ اس نے اپنی چیزیں سمیٹی اور اٹھ کھڑا ہوا
”چلو باہر کافی پینے چلتے ہیں“ وہ اب اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔
مجھے ابھی نوٹس بنانے ہیں۔ سوری میں کافی پینے نہیں جا سکتا میرے پاس ٹائم نہیں ہے“اس نے بڑے سلیقے سے انکار کیا۔ ۔۔
”مجھے تو پینی ہے اور تمہیں میرے ساتھ تو جانا پڑے گا۔
میں اور کچھ نہیں سنوں گی ہم دونوں جا رہے ہیں“ اس نے جلدی سے کہا
لیکن ڈیزی مجھے۔۔ ۔“
”لیکن ویکن کچھ نہیں۔ ۔ گھبراؤ مت بل میں پے کر دوں گی“وہ ہر صورت میں اسے ساتھ لے جانے پر تلی ہوئی تھی۔۔
۔
”ایسی بات نہیں میں نے بتایا ہے کہ مجھے نوٹس بنانے ہیں“
”نوٹس تم بعد میں بھی بنا سکتے ہو۔اب ہماری دوستی ہو چکی ہے اتنا حق تو بنتا ہے میرا کہ تم میرے ساتھ کافی پینے چلو“ حیدر اس کی بات سن کر حیران ہوا جو بڑی بے تکلفی سے ایک ملاقات کے بعد اسے دوست کہہ رہی تھی۔
”پھر کسی دن چلیں گےکافی پینے مگر آج نہیں آج بالکل ٹائم نہیں ہے“ وہ اسے ٹالنےکے موڈ میں تھا
” میں اچھی طرح سمجھ رہی ہوں کہ تم مجھے ٹال رہے ہو مگر میں اتنی آسانی سے ٹلنے والی نہیں ہوں ہم آج ہی جا رہے ہیں۔۔ “حیدر کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ایسے ٹلنے والی نہیں تھی مگر حیدر کو اس کے ساتھ کہیں جانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
” اور کسی لڑکی کی آفر کو یوں رد نہیں کرتے۔ اتنے بھی مینرزنہیں ہے تم میں۔ ۔ ۔۔ اب چلو“ وہ اس کا بازو پکڑے آگے بڑھی۔ حیدر نے نرمی سے اپنا بازو اس کے ہاتھوں سے الگ کیا اور خاموشی سے اس کے ساتھ چلنے لگا وہ خوامخواہ گلے پڑ رہی تھی۔۔۔
”پتاہے حیدر جب میں نے تمہیں دیکھا تھا تو میں اپنی نظریں نہیں ہٹا پائی تھی۔۔۔“ وہ بڑے موڈ میں بولی۔۔
اچھا“ حیدر کو اس کی باتوں میں ذرا دلچسپی نہیں تھی۔۔۔
”یہ کیا بات ہوئی۔۔۔ میں تمہاری تعریف کر رہی ہوں تم ”اچھا کہہ رہے ہو۔۔۔“ اس نے خفگی سے حیدر کو دیکھا۔۔۔ وہ بلیک شرٹ کی آستینوں کو کہنی تک فولڈ کیے بے دلی سے اس کے ساتھ چل رہا تھا۔۔۔
تو اور کیا کہنا چاہیے مجھے؟“ اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔۔۔
”تمہیں خوش ہونا چاہیے۔۔ اور اسی خوشی میں میری بھی تعریف کرنی چاہیے“ اس کی بات سن کر حیدر دھیرے سے مسکرا دیا۔۔۔
”شکر ہے تم ہنستے بھی ہو۔۔ اب اسی خوشی میں میں تمہیں اچھی سی کافی پلاتی ہوں۔“ وہ اسے مسکراتا دیکھ کر بچوں کی طرح خوش ہوئی۔۔۔
Novel
*جب عورت مرتی ھےاسکا جنازہ مرد اٹھاتا ھے ۔اسکو لحد میں یہی مرد اتارتا ھے پیدائش پر یہی مرد اسکے کان میں اذان دیتا ھے۔ باپ کے روپ میں سینے سے لگاتا ھےبھائی کےروپ میں تحفظ فراہم کرتاھےاورشوہرکے روپ میں محبت دیتا ھے۔ اور بیٹےکی صورت میں اس کےقدموں میں اپنےلیے جنت تلاش کرتا ھے ۔۔۔*
*واقعی بہت ھوس کی نگاہ سے دیکھتا ھے ۔۔۔ ھوس بڑھتے بڑھتے ماں حاجرہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صفاومروہ کے درمیان سعی تک لےجاتی ھے ۔اسی عورت کی پکار پر سندھ آپہنچتا ھے ۔اسی عورت کی خاطر اندلس فتح کرتاھے۔ اور اسی ھوس کی خاطر 80% مقتولین عورت کی عصمت کی حفاظت کی خاطر موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ واقعی ''مرد ھوس کا پجاری ھے۔''*
*لیکن جب ھوا کی بیٹی کھلا بدن لیے، چست لباس پہنے باہر نکلتی ھے اور اسکو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ھے تو یہ واقعی ھوس کا پجاری بن جاتا ھے ۔۔۔ اور کیوں نا ھو؟؟*
*کھلا گوشت تو آخر کتے بلیوں کے لیے ھی ھوتا ھے۔*
*جب عورت گھر سے باھر ھوس کے پجاریوں کا ایمان خراب کرنے نکلتی ھے۔ تو روکنےپر یہ آزادخیال عورت مرد کو "تنگ نظر" اور "پتھر کے زمانہ کا" جیسے القابات سے نواز دیتی ھے کہ کھلے گوشت کی حفاظت نہیں، کتوں بليوں کے منہ سینے چاہیے ھیں*
*ستر ہزار کا سیل فون ہاتھ میں لیکرتنگ شرٹ کے ساتھ پھٹی ھوئی جینز پہن کر ساڑھے چارہزار کا میک اپ چہرے پر لگا کر کھلے بالوں کو شانوں پر گرا کر انڈے کی شکل جیسا چشمہ لگا کر کھلےبال جب لڑکیاں گھر سے باہر نکل کر مرد کی ھوس بھری نظروں کی شکایت کریں تو انکو توپ کے آگے باندھ کر اڑادینا چاہئیے جو سیدھا یورپ و امریکہ میں جاگریں اور اپنے جیسی عورتوں کی حالتِ زار دیکھیں جنکی عزت صرف بستر کی حد تک محدود ھے*
*"سنبھال اے بنت حوا اپنے شوخ مزاج کو*
*ھم نے سرِبازار، حسن کو نیلام ھوتے دیکھا ھے"*
( *بانو قدسیہ*)
♥️♥️♥️
*دراز گردن، بدن كى مينا، خمار آنكهيں*
*همارى توبه نه رهنے دںے گى يه بنتِ حوا*
مرد_ھوس_کا_پجاری Marad hawas ka pujari
*سائنس ہمیں کہاں سے کہاں لے آئی۔۔۔*
*پہلے:-* وہ کنویں کا میلہ کچیلہ پانی پی کر بھی ۱۰۰ سال جی لیتے تھے۔۔
*اب:-* آر-او (RO) کا خالص شفاف پانی پی کر بھی چالیس سال میں بوڑھے ہو رہے ہیں۔۔۔۔
*پہلے:-* وہ گھانی کا میلہ سا تیل کھا کر بڑھاپے میں بھی محنت کر لیتے تھے۔۔۔
*اب:-* ہم ڈبل-ٹرپل فلٹر تیل کھا کر جوانی ہی میں ہانپ رہے ہیں۔۔
*پہلے:-* وہ ڈللے والا نمک کھا کر بیمار نہ پڑھتے تھے۔۔۔
*اب:-* ہم آیوڈین والا نمک کھا کر ہائ اور لو بلیڈ پریشر کا شکار ہے۔۔۔۔
*پہلے:-* وہ نیم، ببول،کوئلہ اور نمک سے دانت چمکاتے تھے اور ۸۰ سال کی عمر تک بھی چبا چبا کر کھاتے تھے۔۔۔۔
*اب:-* کولگیٹ والے روز ڈینٹیسٹ کے چکر لگاتے ہیں۔۔۔۔
*پہلے:-* وہ نبض پکڑ کر بیماری بتا دیتے تھے۔۔۔۔
*اب:-* ساری جانچ کرانے پر بھی بیماری نہی جان پاتے ہے۔۔۔۔
*پہلے:-* وہ سات آٹھ بچے پیدا کرنے والی مائیں، ۸۰ سال کی ہونے پر بھی کھیتوں میں کام کرتی تھی۔۔۔
*اب:-* پہلے مہینے سے ڈاکٹر کی دیکھ ریکھ میں رہیتے ہوئے بھی بچے آپریشن سے ہوتے ہے۔۔۔۔۔
*پہلے:-* کالے گڈ کی میٹھاییاں ٹھوک ٹھوک کر کھاتے تھے۔۔۔۔
*اب:-* کھانے سے پہلے ہی شوگر کی بیماری ہوجاتی ہے۔۔۔
*پہلے:-* بزرگوں کے کبھی گھٹنے نہی دکھتے تھے۔۔۔
*اب:-* جوان بھی گھٹنوں اور کمر درد سے کہارتا ہے۔۔۔
*پہلے:-* ۱۰۰ والٹ(100w) کے بلب جلاتے تھے تو بجلی کا بل ۲۰۰ روپیہ مہینہ آتا تھا۔۔۔
*اب:-* 9 والٹ(09w) کی سی ایف ایل(cfl) میں 6000 فی مہینہ کا بل آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
سمجھ نہیں آتا کے ہم کہاں کھڑےہے؟ کیوں کھڑے ہے؟ کیا کھویا کیا پایا؟ سائنس ہمارے حق میں رحمت ہے یا زحمت؟
سائنس کے کمالات
ایک آٹھ دس سال کی معصوم سی غریب لڑکی بک اسٹور پر چڑھتی ہے اور ایک پینسل اور ایک دس روپے والی کاپی خریدتی ہے اور پھر وہیں کھڑی ہو کر کہتی ہے انکل ایک کام کہوں کروگے؟
جی بیٹا بولو کیا کام ہے؟
انکل وہ کلر پینسل کا پیکٹ کتنے کا ہے، مجھے چاہیے، ڈرائنگ ٹیچر بہت مارتی ہے مگر میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں نہ ہی امی ابو کے پاس ہیں، میں آہستہ آہستہ کرکے پیسے دے دوں گی.
شاپ کیپر کی آنکھیں نم ہیں، بولتا ہے بیٹا کوئی بات نہیں یہ کلر پینسل کا پیکٹ لے جاؤ لیکن آئندہ کسی بھی دکاندار سے اس طرح کوئی چیز مت مانگنا، لوگ بہت برے ہیں، کسی پر بھروسہ مت کیا کرو.
جی انکل بہت بہت شکریہ میں آپ کے پیسے جلد دے دوں گی اور بچی چلی جاتی ہے.
ادھر شاپ کیپر یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے اللہ نہ کرے اگر ایسی بچیاں کسی وحشی دکاندار کے ہتھے چڑھ گئیں تو زینب کا سا حال ہی ہوگا.
ٹیچرز سے گذارش ہے خدارا اگر بچے کوئی کاپی پینسل کلر پینسل وغیرہ نہیں لا پاتے تو جاننے کی کوشش کیجئے کہ کہیں اس کی غربت اس کے آڑے تو نہیں آ رہی، اور ہو سکے تو ایسے معصوم بچوں کی تعلیم کے اخراجات آپ ٹیچر حضرات مل کر اٹھا لیا کریں، یقین جانیں ہزاروں لاکھوں کی تنخواہ میں سے چند سو روپے کسی کی زندگی نہ صرف بچا سکتے ہیں بلکہ سنوار بھی سکتے ہیں.
#Jawad_Butt
ایک ننھی بچِی
*1) خود کی جان خطرے میں ڈالنا*
= شادی کرنا🤩🤩😏😏😒😒😜😍😉
*2) آ بیل مجھے مار*
= بیوی سے پنگا لینا😭😭😭😢😢
*3) دیوار سے سر ٹکرانا*
= بیوی کو کچھ سمجھانا😉😉😉😌😌😌
*4) چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات*
بیوی کا مائیکے سے واپس آنا🤪🤪🧐🧐
*5). خود کشی پر ابھارنا*
= شادی کی رائے دینا 😜😜😜🤣🤣
*6). دشمنی نبھانا*
= دوستوں کی شادی کروانا😝😝😛😜😜
*8). گناہوں کی سزا ملنا*
= شادی شدہ ہوجانا😆😆😆😅
*13). خود کو لٹتے ہوئے دیکھنا*
= بیوی کی فرمائشیں پوری کرنا🤨🤨🤨🤓😄😄
*14) غلطی پر پچھتاوا کرنا*
شادی کی تصویریں دیکھنا😍😜😜😜😛😛
*15) اپنے پیر پر کلھاڑی مارنا*
بیوی کو گھمانے لے جانا😁😁😁😃😃
_*اگر کوئی اضافی محاورہ یا مندرجہ بالا میں ترمیم و اضافہ،تحریر کرنا چاہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔ اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے !!!*_
😂😂😜😜😂😂😂🤣🤣🤣🤪🤪🤪😜😜😜
مشہور محاوارت کے درست اور سچے مطلب
آرتھر آشے امریکہ کا نمبر ون ٹینس پلیئر تھا۔یہ عوام میں بے حد مقبول تھا اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ یہ ایک بہترین کھلاڑی تھا۔جب آپ متعلقہ فیلڈ میں عروج کی حد تک ماہر ہو جاتے ہیں تو آپ ہر دلعزیز بن جاتے ہیں۔ آرتھر کو ایک حادثے کے بعد انتہائی غفلت کے ساتھ ایڈز کے مریض کا خون لگا دیا گیا اور آرتھر کو بھی ایڈز ہو گیا
جب وہ بستر مرگ پر تھا اسے دنیا بھر سے اس کے فینز کے خطوط آتے تھے۔ایک فین نے خط بھیجا جس میں لکھا ہوا تھا “خدا نے اس خوفناک بیماری کے لیے تمہیں ہی کیوں چنا؟” آرتھر نے صرف اس ایک خط کا جواب دیا جو کہ یہ تھا “دنیا بھر میں پانچ کروڑ سے زائد بچے ٹینس کھیلنا شروع کرتے ہیں اور ان میں سے پچاس لاکھ ہی ٹینس کھیلنا سیکھ پاتے ہیں۔ان پچاس لاکھ میں سے پچاس ہزار ہی ٹینس کے سرکل میں داخل ہوتے ہیں جہاں ڈومیسٹک سے انٹرنیشنل لیول تک کھیل پاتے ہیں۔ان پچاس ہزار میں سے پانچ ہزار ہیں جو گرینڈ سلام تک پہنچ پاتے ہیں۔ان پانچ ہزار میں سے پچاس ہی ہیں جو ومبلڈن تک پہنچتے ہیں اور ان پچاس میں سے محض چار ہوتے ہیں جو ومبلڈن کے سیمی فائنل تک پہنچ پاتے ہیں ان چار میں سے صرف دوہی فائنل تک جاتے ہیں اور ان دو میں سے محض ایک ہی ٹرافی اٹھاتا ہے اور وہ ٹرافی اٹھانے والا پانچ کروڑ میں سے چنا جاتا ہے۔ وہ ٹرافی اٹھائے میں نے کبھی خدا سے نہیں پوچھا کہ “میں ہی کیوں؟” لہذا آج اگر درد مل رہا ہے تو میں خدا سے شکوے شروع کر دوں کہ میں ہی کیوں؟ جب ہم نے اپنے اچھے وقتوں میں خدا کو نہیں پوچھا کہ “?why me( میں ہی کیوں) تو ہم برے وقتوں میں کیوں پوچھیں ?why me (میں ہی کیوں) ۔
میں ہی کیوں؟؟؟
ایک گاوں میں غریب نائی رہتا تھا جو ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کے لوگوں کی حجامت کرتا ۔ مشکل سے گزر بسر ہوتی. اس کے پاس رہنے کو نہ گھر تھا نہ بیوی تھی نہ بچے تھے۔ ایک چادر اور ایک تکیہ اس کی ملکیت تھی ۔جب رات ہوتی تو وہ ایک بند سکول کے باہر چادر بچھاتا، تکیہ رکھتا اور سو جاتا.
ایک دن صبح کے وقت گاوں میں سیلاب آ گیا.
اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف شور و غل تھا۔ وہ اٹھا اور سکول کے ساتھ بنی ٹینکی پر چڑھ گیا. چادر بچھائی، دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا ۔
لوگ اپنا سامان، گھر کی قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہے تھے. کوئی نقدی لے کر بھاگ رہا ہے، کوئی زیور کوئی بکریاں تو کوئی کچھ قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہا ہے۔
اسی دوران ایک شخص بھاگتا آ رہا تھا اس نے سونے کے زیور پیسے اور کپڑے اٹھا رکھے تھے۔جب وہ اس نائی کے پاس سے گزرا تو اسے سکون سے لیٹے ہوئے دیکھا تو رک کر بولا۔۔۔ اوئے ساڈی ہر چیز اجڑ گئی اے. ساڈی جان تے بنی اے، تے تو ایتھے سکون نال لیٹا ہویا ویں۔۔۔۔
یہ سن کر وہ ہنس کر بولا : لالے اج ای تے غربت دی چس آئی اے۔
جب میں نے یہ کہانی سنی تو ہنس پڑا ۔مگر پھر ایک خیال سا آیا۔
میں روز محشر والے دن کا سوچنے لگا کہ بروز حشر کا منظر بھی کچھ ایسا ہو۔ جب تمام انسانوں کا حساب قائم ہو گا۔ ایک طرف غریبوں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔ دو وقت کی روٹی، کپڑا ۔حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔
ایک طرف امیروں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔پلازے. دکانیں. فیکٹریاں. گاڑیاں. بنگلے. سونا چاندی ۔ ملازم ۔ پیسہ ۔حلال حرام۔ عیش و آرام ۔ زکواۃ ۔حقوق اللہ۔ حقوق العباد...
اتنی چیزوں کا حساب کتاب دیتے ہوئے پسینے سے شرابور اور خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہو گے۔
دوسری طرف غریب کھڑے ان کو دیکھ رہے ہو گے چہرے پر ایک عجیب سا سکون اور شاید دل ہی دل میں کہہ رہے ہو گے...
اج ای تے غربت دی چس آئی اے...
نائی اور غربت دی چس
جلد یا بدیر یہ بات آشکار ہو جائے گی کہ کس طرح سازش کے ذریعے اس ملک کی حقیقی مذہبی جمہوری طاقتوں کو پس منظر میں دھکیل کے مصنوعی احتجاج کندگان اور دھرنے باز مارکٹ میں لانچ کیے گئے -
اس سے ایک تیر میں کئی شکار کیے گئے -
سڑکیں بری طرح بند کروا کے لوگوں میں اس کاز سے دوری پیدا کی گئی -
اس بہانے موبائل فون ، انٹر نیٹ اور دیگر ذرائع رابطہ مکمل بند کر کے لوگوں میں اہل دین سے نفرت پیدا کرنے کے مقاصد حاصل کیے گئے -
سوشل میڈیا پر اور الیکٹرانک میڈیا پر پلاننگ کے تحت جلاؤ گھیراؤ کی ویڈیوز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ، یہ کسی نے نہ بتایا کہ کسی بھی مذہبی تنظیم کے کسی احتجاج میں ایک تنکا تک نہیں ٹوٹا - یہ واقعات صرف وہاں پیش آئے جہاں نامعلوم ، اوباش اور شوھدے لڑکے "اپائنٹ " کیے گئے تھے ، جن کی ڈیوٹی ہی یہ تھی کہ ایسا کریں - اس کا مقصد عام عوام کی نظر میں حرمت رسول کی حساسیت کو دوسرا رخ دینا تھا -
پاکستان میں سب سے زیادہ ہنگامے شیخپورہ انٹر چینج پر ہوئے ، جہاں تحریک لبیک کا کوئی رسوخ ہی نہیں اور نہ کوئی اور مذہبی جماعت ایسی مضبوط ہے - اتفاق سے یہ میرا آبائی گاؤں بھی ہے -صرف عام اور آوارہ افراد نے ہنگامے کیے اور بدنام پرامن دینی طبقہ کیا گیا -
تمام مذہبی جماعتوں نے پاکستان بھر میں اس دھرنے سے کہیں بڑے پرامن احتجای اجتماع کیے جو سب اس ہنگامے کے پیچھے چھپا دیے گئے -
جب تین دن خوب ہنگامہ کر لیا گیا تو اس قلیل گروہ سے مذاکرات کر کے تمام کھیل لپیٹ دیا گیا -
...آپ جانتے ہیں کہ مڈیکل سائنس میں مدافعتی دوائیں کیسے تیار کی جاتی ہیں ؟
بس یہی طریقہ اختیار کیا گیا - کہ مصنوعی احتجاج کے پردے میں حقیقی احتجاج کو چھپا لیا گیا ..اور مناسب وقت پر اس احتجاج کو ختم کروا لیا گیا --
وگرنہ ہم دیکھتے کہ کوئی اور آرمی میں بغاوت کی بات کرے اور کھول کھول کے کہے کہ غیرت مند جرنیل اٹھیں اور بغاوت کر دیں یا چیف جسٹس کو قتل کرنے کا اعلان کرے اور دو دن بعد اس سے باعزت معاہدے کر کے اسے گھر تک کون جانے دے ؟ ..لیکن یہاں یہ کرامت بھی ہو گئی کہ مفتی صاحب نے کھل کے ججوں کے قتل کا فتوی دیا اور ان کو باعزت رخصتی ملی -
تحریر ابوبکر قدوسی
مصنوعی احتجاج
فرانس میں ایک دن میں ایک کافی شاپ میں بیٹھا کافی پی رہا تھا کہ میری برابر والی ٹیبل پر ایک داڑھی والا آدمی مجھے دیکھ رہا تھا میں اٹھ کر اسکے پاس جا بیٹھا اور میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ مسلمان ہیں ؟
اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’نہیں میں جارڈن کا یہودی ہوں۔
میں ربی ہوں اور پیرس میں اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا ہوں‘
میں نے پوچھا ’’تم اسلام کے کس پہلو پر پی ایچ ڈی کر رہے ہو؟‘‘
وہ شرما گیا اور تھوڑی دیر سوچ کر بولا ’’میں مسلمانوں کی شدت پسندی پر ریسرچ کر رہا ہوں‘‘
میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کہاں تک پہنچی؟‘‘
اس نے کافی کا لمبا سپ لیا اور بولا ’’میری ریسرچ مکمل ہو چکی ہے اور میں اب پیپر لکھ رہا ہوں‘‘
میں نے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کی فائنڈنگ کیا ہے؟‘‘
اس نے لمبا سانس لیا‘ دائیں بائیں دیکھا‘ گردن ہلائی اور آہستہ آواز میں بولا ’’میں پانچ سال کی مسلسل ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔
یہ اسلام پر ہر قسم کا حملہ برداشت کر جاتے ہیں لیکن یہ نبی کی ذات پر اٹھنے والی کوئی انگلی برداشت نہیں کرتے‘‘
یہ جواب میرے لیے حیران کن تھا‘ میں نے کافی کا مگ میز پر رکھا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‘
وہ بولا ’’میری ریسرچ کے مطابق مسلمان جب بھی لڑے‘ یہ جب بھی اٹھے اور یہ جب بھی لپکے اس کی وجہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی‘ آپ خواہ ان کی مسجد پر قبضہ کر لیں‘ آپ ان کی حکومتیں ختم کر دیں۔ آپ قرآن مجید کی اشاعت پر پابندی لگا دیں یا آپ ان کا پورا پورا خاندان مار دیں یہ برداشت کرجائیں گے لیکن آپ جونہی ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام غلط لہجے میں لیں گے‘ یہ تڑپ اٹھیں گے اور اس کے بعد آپ پہلوان ہوں یا فرعون یہ آپ کے ساتھ ٹکرا جائیں گے‘‘
میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولا ’’میری فائنڈنگ ہے جس دن مسلمانوں کے دل میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہو جائے گا۔
چنانچہ آپ اگر اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کومسلمانوں کے دل سے ان کا رسول نکالنا ہوگا‘‘
اس نے اس کے ساتھ ہی کافی کا مگ نیچے رکھا‘ اپنا کپڑے کا تھیلا اٹھایا‘ کندھے پر رکھا‘ سلام کیا اور اٹھ کر چلا گیا
لیکن میں اس دن سے ہکا بکا بیٹھا ہوں‘ میں اس یہودی ربی کو اپنا محسن سمجھتا ہوں کیونکہ میں اس سے ملاقات سے پہلے تک صرف سماجی مسلمان تھا لیکن اس نے مجھے دو فقروں میں پورا اسلام سمجھا دیا‘
میں جان گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اسلام کی روح ہے اور یہ روح جب تک قائم ہے اس وقت تک اسلام کا وجود بھی سلامت ہے‘ جس دن یہ روح ختم ہو جائے گی اس دن ہم میں اور عیسائیوں اور یہودیوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا
بہت اچھا کالم
ﭨﯿﮑﺴﺎﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ 37 ﺳﺎﻟﮧ ﮐﺎﺭﻻ ﻓﮯ ﭨﮑﺮ
( Karla Faye Tucker ) ﮐﻮ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﮑﺸﻦ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ،موت کے بستر ﭘﺮ ﻟﯿﭩﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ھنس ﮐﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ، ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﻧﺒﺾ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ " ﺍﯾﺴﯽ ﭘﺮﺳﮑﻮﻥ ﻣﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﯽ "
ﮐﺎﺭﻻ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺟﺴﻢ ﻓﺮﻭﺵ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﮭﯽ ، ﺑﭽﭙﻦ ﮬﯽ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﺸﮯ ﭘﺮ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ﭘﮭﺮ ﺁﮬﺴﺘﮧ ﺁﮬﺴﺘﮧ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﻧﻘﺶ ﻗﺪﻡ ﭘﺮ ﭼﻞ ﭘﮍﯼ ، 10 ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺍُﺳﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﺍُﺳﮯ ﺍﺱ ﭘﯿﺸﮯ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮬﯿﺌﮯ ، ﺳﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﺎﮌﯼ ﭼﮭﯿﻨﻨﮯ ﮐﯽ اﺳﮑﯿﻢ ﺑﻨﺎﺋﯽ ، ﻣﻮﻗﻌﮧ ﻭﺍﺭﺩﺍﺕ ﭘﺮ ﻣﺰﺍﺣﻤﺖ ﮬﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﻻ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﻧﮯ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺟﻮﮌﮮ ﮐﻮ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ، ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﭘﮑﮍﮮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻧﮯ ﺳﺰﺍﺋﮯ ﻣﻮﺕ ﺳﻨﺎ ﺩﯼ ، ﭘﮭﯿﺮ ﺍﭘﯿﻠﻮﮞ کے ﭼﮑﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﻋﺮﺻﮧ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮔﯿﺎ ، ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﯿﻞ ﮐﮯ ﻋﻤﻠﮯ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﺎﺭﻻ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺷﺮﺍﺑﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺪ ﺯﺑﺎﻥ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺑﺎﺋﺒﻞ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺻﺎﻑ ﮬﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﻼﻕ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ، ﻭﮦ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺋﺒﻞ ﭘﮍﮬﺘﯽ ﺭﮬﺘﯽ ، ﻣﻠﻨﺎ ﺟﻠﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ ﭼﯿﺖ ﺧﺘﻢ ﮐﺮ ﺩﯼ۔
ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﻣﺒﻠﻐﮧ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺒﻠﻐﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎظ و زباں ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﺗﮭﯽ ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯼ ۔ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻭ ﺭﯾﺎﺿﺖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯿﺎﮞ ﮬﯽ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺟﻮ ﺍﺳﮯ ﻗﺎﺗﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﮓ ﺩﻝ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺍﻧﻘﻼﺏ ﺁ ﮔﯿﺎ ۔ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺟﺐ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺟﯿﻞ ﭘﺮ ﭨﻮﭦ ﭘﮍﺍ ، ﭘﮭﺮ ﮬﺮ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﺭﻻ ﮐﯽ ﮬﯿﮉ ﻻﺋﻦ ﻟﮕﯽ ۔ ﮬﺮ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﻮﭨﻮ ﺍُﭨﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻣﻈﺎﮬﺮﮮ ﮬﻮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ، ﺣﻘﻮﻕ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺗﻨﻈﯿﻤﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﻣﯿﮟ " ﮐﺎﺭﻻ ﺑﭽﺎﺅ " ﺗﺤﺮﯾﮏ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺑﮍﮬﺎ ﮐﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﭘﻮﭖ ﺟﺎﻥ ﭘﺎﻝ ﻧﮯ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﺩﮮ ﺩﯼ ﻟﯿﮑﻦ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻧﮯ ﭨﮭﮑﺮﺍ ﺩﯼ
ﺳﺰﺍﺋﮯ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺩﻥ ﻗﺒﻞ ﮐﻨﮓ ﻟﯿﺮﯼ نے CNN ﮐﮯ لیے ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﻮﺭﮮ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﻭﮦ ﻗﺎﺗﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﮬﮯ۔ ﻟﯿﺮﯼ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ " ﺗﻤﮭﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺧﻮﻑ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﺗﺎ " ، ﮐﺎﺭﻻ ﻧﮯ ﭘﺮ ﺳﮑﻮﻥ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ " ﻧﮩﯿﮟ بلکہ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺭﺏ ﮐﻮ ﻣﻠﻨﺎ ﭼﺎﮬﺘﯽ ﮬﻮﮞ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮬﯽ ﺑﺪﻝ ﺩﯼ "
ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺷﮩﺮﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺘﻔﻘﮧ ﺭﺣﻢ ﮐﯽ ﺍﭘﯿﻞ " ﭨﯿﮑﺴﺎﺱ ﺑﻮﺭﮈ ﺁﻑ ﭘﺎﺭﮈﻥ ﺍﯾﻨﮉ ﭘﯿﺮﻭﻝ " ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ۔ ﺑﻮﺭﮈ ﻧﮯ ﺳﺰﺍ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ، ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﭨﯿﮑﺴﺎﺱ ﮐﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺟﺎﺭﺝ ﺑُﺶ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ۔ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﺟﯿﮑﯽ ﺟﯿﮑﺴﻦ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﺭﻻ ﮐﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﮐﺮ ﺩﯼ ، ﺑُﺶ ﻧﮯ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﺳﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﺭﻻ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﮑﯽ ﺟﯿﮑﺴﻦ ﺳﮯ ﮬﻤﺪﺭﺩﯼ ﮬﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﺩﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ ﺳﺰﺍ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ، ﻭﮦ ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﺑﮭﯽ ﮬﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻣﻌﺎﻑ ﻧﮧ ﮬﻮ ﺳﮑﺘﯽ "
ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﺩﻭ ﺭﻭﺯ ﻗﺒﻞ ﮐﺎﺭﻻ ﮐﯽ ﺭﺣﻢ ﮐﯽ ﺍﭘﯿﻞ ﺳﭙﺮﯾﻢ ﮐﻮﺭﭦ ﭘﮩﯿﻨﭽﯽ ﺗﻮ ﺟﺞ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯼ " ﺍﮔﺮ ﺁﺝ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎﺭﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻘﺪﺱ ﮨﺴﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﻣﺮﯾﮑﻦ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﺭﯾﻠﯿﻒ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﻋﺎﯾﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﺍﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﺭﻋﺎﯾﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ، ﮨﻢ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍُﻥ ﺩﻭ ﻻﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺑﺪﮦ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﮐﺎﺭﻻ ﻧﮯ ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻻ "
ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺳﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ *ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﮐﺮﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺟﮩﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﻭﮦ ﻗﻮﻝ ﯾﺎﺩ ﺁ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ*
*" ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﻔﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮦ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻧﺎ ﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ۔*
(as received)
( Karla Faye Tucker ) ﮐﻮ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﮑﺸﻦ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ،موت کے بستر ﭘﺮ ﻟﯿﭩﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ھنس ﮐﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ، ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﻧﺒﺾ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ " ﺍﯾﺴﯽ ﭘﺮﺳﮑﻮﻥ ﻣﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﯽ "
ﮐﺎﺭﻻ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺟﺴﻢ ﻓﺮﻭﺵ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﮭﯽ ، ﺑﭽﭙﻦ ﮬﯽ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﺸﮯ ﭘﺮ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ﭘﮭﺮ ﺁﮬﺴﺘﮧ ﺁﮬﺴﺘﮧ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﻧﻘﺶ ﻗﺪﻡ ﭘﺮ ﭼﻞ ﭘﮍﯼ ، 10 ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺍُﺳﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﺍُﺳﮯ ﺍﺱ ﭘﯿﺸﮯ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮬﯿﺌﮯ ، ﺳﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﺎﮌﯼ ﭼﮭﯿﻨﻨﮯ ﮐﯽ اﺳﮑﯿﻢ ﺑﻨﺎﺋﯽ ، ﻣﻮﻗﻌﮧ ﻭﺍﺭﺩﺍﺕ ﭘﺮ ﻣﺰﺍﺣﻤﺖ ﮬﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﻻ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﻧﮯ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺟﻮﮌﮮ ﮐﻮ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ، ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﭘﮑﮍﮮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻧﮯ ﺳﺰﺍﺋﮯ ﻣﻮﺕ ﺳﻨﺎ ﺩﯼ ، ﭘﮭﯿﺮ ﺍﭘﯿﻠﻮﮞ کے ﭼﮑﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﻋﺮﺻﮧ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮔﯿﺎ ، ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﯿﻞ ﮐﮯ ﻋﻤﻠﮯ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﺎﺭﻻ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺷﺮﺍﺑﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺪ ﺯﺑﺎﻥ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺑﺎﺋﺒﻞ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺻﺎﻑ ﮬﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﻼﻕ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ، ﻭﮦ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺋﺒﻞ ﭘﮍﮬﺘﯽ ﺭﮬﺘﯽ ، ﻣﻠﻨﺎ ﺟﻠﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ ﭼﯿﺖ ﺧﺘﻢ ﮐﺮ ﺩﯼ۔
ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﻣﺒﻠﻐﮧ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺒﻠﻐﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎظ و زباں ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﺗﮭﯽ ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯼ ۔ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻭ ﺭﯾﺎﺿﺖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯿﺎﮞ ﮬﯽ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺟﻮ ﺍﺳﮯ ﻗﺎﺗﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﮓ ﺩﻝ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺍﻧﻘﻼﺏ ﺁ ﮔﯿﺎ ۔ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺟﺐ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺟﯿﻞ ﭘﺮ ﭨﻮﭦ ﭘﮍﺍ ، ﭘﮭﺮ ﮬﺮ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﺭﻻ ﮐﯽ ﮬﯿﮉ ﻻﺋﻦ ﻟﮕﯽ ۔ ﮬﺮ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﻮﭨﻮ ﺍُﭨﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻣﻈﺎﮬﺮﮮ ﮬﻮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ، ﺣﻘﻮﻕ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺗﻨﻈﯿﻤﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﻣﯿﮟ " ﮐﺎﺭﻻ ﺑﭽﺎﺅ " ﺗﺤﺮﯾﮏ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺑﮍﮬﺎ ﮐﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﭘﻮﭖ ﺟﺎﻥ ﭘﺎﻝ ﻧﮯ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﺩﮮ ﺩﯼ ﻟﯿﮑﻦ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻧﮯ ﭨﮭﮑﺮﺍ ﺩﯼ
ﺳﺰﺍﺋﮯ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺩﻥ ﻗﺒﻞ ﮐﻨﮓ ﻟﯿﺮﯼ نے CNN ﮐﮯ لیے ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﻮﺭﮮ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﻭﮦ ﻗﺎﺗﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﮬﮯ۔ ﻟﯿﺮﯼ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ " ﺗﻤﮭﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺧﻮﻑ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﺗﺎ " ، ﮐﺎﺭﻻ ﻧﮯ ﭘﺮ ﺳﮑﻮﻥ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ " ﻧﮩﯿﮟ بلکہ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺭﺏ ﮐﻮ ﻣﻠﻨﺎ ﭼﺎﮬﺘﯽ ﮬﻮﮞ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮬﯽ ﺑﺪﻝ ﺩﯼ "
ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺷﮩﺮﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺘﻔﻘﮧ ﺭﺣﻢ ﮐﯽ ﺍﭘﯿﻞ " ﭨﯿﮑﺴﺎﺱ ﺑﻮﺭﮈ ﺁﻑ ﭘﺎﺭﮈﻥ ﺍﯾﻨﮉ ﭘﯿﺮﻭﻝ " ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ۔ ﺑﻮﺭﮈ ﻧﮯ ﺳﺰﺍ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ، ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﭨﯿﮑﺴﺎﺱ ﮐﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺟﺎﺭﺝ ﺑُﺶ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ۔ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﺟﯿﮑﯽ ﺟﯿﮑﺴﻦ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﺭﻻ ﮐﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﮐﺮ ﺩﯼ ، ﺑُﺶ ﻧﮯ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﺳﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﺭﻻ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﮑﯽ ﺟﯿﮑﺴﻦ ﺳﮯ ﮬﻤﺪﺭﺩﯼ ﮬﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﺩﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ ﺳﺰﺍ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ، ﻭﮦ ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﺑﮭﯽ ﮬﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻣﻌﺎﻑ ﻧﮧ ﮬﻮ ﺳﮑﺘﯽ "
ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﺩﻭ ﺭﻭﺯ ﻗﺒﻞ ﮐﺎﺭﻻ ﮐﯽ ﺭﺣﻢ ﮐﯽ ﺍﭘﯿﻞ ﺳﭙﺮﯾﻢ ﮐﻮﺭﭦ ﭘﮩﯿﻨﭽﯽ ﺗﻮ ﺟﺞ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯼ " ﺍﮔﺮ ﺁﺝ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎﺭﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻘﺪﺱ ﮨﺴﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﻣﺮﯾﮑﻦ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﺭﯾﻠﯿﻒ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﻋﺎﯾﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﺍﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﺭﻋﺎﯾﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ، ﮨﻢ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍُﻥ ﺩﻭ ﻻﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺑﺪﮦ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﮐﺎﺭﻻ ﻧﮯ ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻻ "
ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺳﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ *ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﮐﺮﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺟﮩﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﻭﮦ ﻗﻮﻝ ﯾﺎﺩ ﺁ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ*
*" ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﻔﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮦ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻧﺎ ﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ۔*
(as received)
Karla Faye Tucker کی کہانی
۔🍃🌹🍃🌹🍃🌹
_جو علم آپ کو اپنے عیب_
_دکھائے وہی اصل علم ہے،_
_دوسروں کے عیب دیکھنا_
_خود سے دوری ہے ، *اللہ*_
_سے دوری ہے ۔۔۔ وہی علم_
_روشنی پھیلاتا ہے جو آپ کو_
_خود شناس بنا سکے ۔ ۔ ۔ !!_
_*خــوش رہیں خــوشیاں بانٹیں۔*_
_*انتخابـــــــــــ*_
_*خـــاکـــســــار*_
_*سنــــھری بـ۔۔۔ـاتیـــــں 📚*_
۔🍃🌹🍃🌹🍃🌹
۔🍃🌹🍃🌹🍃🌹
_اصل اور نقل کا رنگ_
_ایک ہی ہوتا ہے_
_لیکن جاننے والے کی_
_نگاہ میں ان میں ہزار_
_ہا میلوں کے فاصلے_
_ہوتے ہیں._
*حضرت واصف علی واصف ؒ*
_*انتخابـــــــــــ*_
_*خـــاکـــســــار*_
_*سنــــھری بـ۔۔۔ـاتیـــــں 📚*_
۔🍃🌹🍃🌹
۔🌹🍃🌹🍃🌹🍃
_وہ احساس بهت ہی_
_*الگ ہوتا ہے جب اللہ*_
_کی محبت کو_
_محسوس_
_کرتےہوئے آنکهو سے_
_آنسوں بہنا شروع ہو_
_جاتے ہیں_
_*انتخابـــــــــــ*_
_*خـــاکـــســــار*_
_*سنــــھری بـ۔۔۔ـاتیـــــں 📚*_
۔🌹🍃🌹🍃🌹🌹
۔🍃🌹🍃🌹🍃
جو دکھ دے اسے
چھوڑدو مگرجسے
چھوڑ دو اسےدکھ
نہ دو
_*انتخابـــــــــــ*_
_*خـــاکـــســــار*_
_*سنــــھری بـ۔۔۔ـاتیـــــں 📚*_
۔🍃🌹🍃🌹🍃
سنہری باتیں
اپنا پیٹ خالی رہ جائے لیکن چھوٹی بہن کو بھوکا نہیں رکھ سکتے۔
تحریر:۔ محمد صدیق (آج کی آپ بیتی)
اگاپنا پیٹ خالی رہ جائے لیکن چھوٹی بہن کو بھوکا نہیں رکھ سکتے۔
تحریر:۔ محمد صدیق (آج کی آپ بیتی)
اگر بات اچھی لگے تو اسے دوسروں تک بھی شیئر کریں کیا پتا اللہ کس کے ہاتھوں سے دوسروں کی زندگی اور آخرت کو بدل دے۔
معزز دوستوں جو بات میں لکھنے جا رہا ہوں یہ کوئی کہانی یا قہاوت نہیں بلکہ آج یکم نومبر بروز جمعرات صبح تقریباً آٹھ بجنے کے قریب کا واقعہ ہے کہ میں معمول کے مطابق نیوسٹی سیکٹر ڈی اور بن خرماں کے درمیان اپنے موٹر سائیکل پر سفر کر کے اپنی ڈیوٹی پر جا رہا تھا کہ کہ اونچی آواز میں بھائی بھائی کی صدا آنے لگی تو میں نے دیکھا ایک پٹھا ن ک ننھا سا بچہ کچرے کا بیگ اٹھائے سامنے آگیا اور لفٹ مانگی ۔میں نے لفٹ دے دی اور راستے میں اس سے اس کے بارے میں پوچھا کہ وہ یہ کام کیوں کرتا ہے اور پڑھائی کیوں نہیں کرتا تو میرے پوچھنے پر اس معصوم بچے نے کہا بھائی جی میں سکول میں پڑھتا تھا کہ ابو کی ٹانگ ٹوٹ گئ اور جس کی وجہ سے مجھے پڑھائی چھوڑنی پڑی اور پھر کام کاج پر آنا پڑھا۔مزید پوچھنے پر اس نے بتایا کہ دن میں 3سو روپے کما لیتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر راشن گھر لے کر جاتا ۔اس کی عمر تقریباً 12 سے 15 سال کے درمیان تھی اس سے چھوٹا ایک بھائی اور تین بہنیں تھیں جن کا خرچا اس کے ذمہ تھا۔اس بچے سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی قابلیت ظاہر ہو رہی تھی۔دل نہ چاہا کہ اس کو سکول میں داخل کروا کہ آوں پھر خیال آیا کہ سکول نہ جانے کہ جو وجہ ہے پہلے اس کو حل کرنا ضروری ہے ۔ابو کا نمبر مانگنے پر اس نے بولا کبھی فون کیا ہی نہیں اور روزانہ اسی جگہ سے کچرا کا بیگ لے کر سامان اکٹھا کرتا اور پھر دوسرے پہر نانگی ایریا کی طرف جاتا ہے اور وہاں سے آٹا اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء گھر لے کر جاتا ہے۔دوستوں اس ننھے کا جذبہ اپنی بہن کے لیے دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اتنی سے عمر میں بھی اتنی بڑی سوچ کہ خود بھوکا رہ سکتا ہوں لیکن اپنی بہن کو دودھ نہ ملنے پر روتا نہیں دیکھ سکتا۔میں اپنی بہنوں سے بہت پیار کر تا ہوں اور ان کے لیے پڑھائی چھوڑ کر کام کرتا ہوں کہ گھر کا نظام چلے۔مزید یہ کہ گھر میں بجلی بھی نہیں لگی کہ بل نہیں ادا کر سکتے۔جلدی میں اس کا ایڈریس پوچھنا بھول گیا لیکن کل اس سے دوبارہ ملنے کا بولا تھا کہ ابو کا نمبر لاو پھر مخیر حضرات کے ذریعے اس کی تعلیم و ضروریات زندگی کا کوئ مناسب بندوبست کیا جا سکے۔دوستوں یہ ایک ننھے گل خان کی کہانی نہیں بلکہ اس ملک میں بسنے والے بے شمار سفید پوش لوگوں کی کہانیاں ایسی ہی ہیں فرق صرف اتنا سا ہے کہ و منظر عام پر نہیں آتی اور ان کی زندگی کا چراغ گل ہو جاتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا اپ میرے کہنے پر ان کی مدد کریں لیکن اتنا ضرور کہنا چاہوں گا جتنی ہو سکے اور جنتا اللہ نے آپکو آج دیا ہوا ہے اس میں سے اسکے بندوں پر بھی خرچ کیجئے شاید کسی غریب کے گھر کے چولے کے ساتھ اس کی زندگی اور بہتر مستقبل سے کئی مزید گھروں کے چولے بھی جل جائیں۔
ہم کتنا پیسہ اپنی ذاتی خواہشات پر لگا دیتے ہیں لیکن کسی غریب کی مدد کے لیے ہمارے ہاتھ اور حالات تنگ کیوں ہو جاتے ہیں۔کیوںوں تک بھی شیئر کریں کیا پتا اللہ کس کے ہاتھوں سے دوسروں کی زندگی اور آخرت کو بدل دے۔
معزز دوستوں جو بات میں لکھنے جا رہا ہوں یہ کوئی کہانی یا قہاوت نہیں بلکہ آج یکم نومبر بروز جمعرات صبح تقریباً آٹھ بجنے کے قریب کا واقعہ ہے کہ میں معمول کے مطابق نیوسٹی سیکٹر ڈی اور بن خرماں کے درمیان اپنے موٹر سائیکل پر سفر کر کے اپنی ڈیوٹی پر جا رہا تھا کہ کہ اونچی آواز میں بھائی بھائی کی صدا آنے لگی تو میں نے دیکھا ایک پٹھا ن ک ننھا سا بچہ کچرے کا بیگ اٹھائے سامنے آگیا اور لفٹ مانگی ۔میں نے لفٹ دے دی اور راستے میں اس سے اس کے بارے میں پوچھا کہ وہ یہ کام کیوں کرتا ہے اور پڑھائی کیوں نہیں کرتا تو میرے پوچھنے پر اس معصوم بچے نے کہا بھائی جی میں سکول میں پڑھتا تھا کہ ابو کی ٹانگ ٹوٹ گئ اور جس کی وجہ سے مجھے پڑھائی چھوڑنی پڑی اور پھر کام کاج پر آنا پڑھا۔مزید پوچھنے پر اس نے بتایا کہ دن میں 3سو روپے کما لیتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر راشن گھر لے کر جاتا ۔اس کی عمر تقریباً 12 سے 15 سال کے درمیان تھی اس سے چھوٹا ایک بھائی اور تین بہنیں تھیں جن کا خرچا اس کے ذمہ تھا۔اس بچے سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی قابلیت ظاہر ہو رہی تھی۔دل نہ چاہا کہ اس کو سکول میں داخل کروا کہ آوں پھر خیال آیا کہ سکول نہ جانے کہ جو وجہ ہے پہلے اس کو حل کرنا ضروری ہے ۔ابو کا نمبر مانگنے پر اس نے بولا کبھی فون کیا ہی نہیں اور روزانہ اسی جگہ سے کچرا کا بیگ لے کر سامان اکٹھا کرتا اور پھر دوسرے پہر نانگی ایریا کی طرف جاتا ہے اور وہاں سے آٹا اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء گھر لے کر جاتا ہے۔دوستوں اس ننھے کا جذبہ اپنی بہن کے لیے دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اتنی سے عمر میں بھی اتنی بڑی سوچ کہ خود بھوکا رہ سکتا ہوں لیکن اپنی بہن کو دودھ نہ ملنے پر روتا نہیں دیکھ سکتا۔میں اپنی بہنوں سے بہت پیار کر تا ہوں اور ان کے لیے پڑھائی چھوڑ کر کام کرتا ہوں کہ گھر کا نظام چلے۔مزید یہ کہ گھر میں بجلی بھی نہیں لگی کہ بل نہیں ادا کر سکتے۔جلدی میں اس کا ایڈریس پوچھنا بھول گیا لیکن کل اس سے دوبارہ ملنے کا بولا تھا کہ ابو کا نمبر لاو پھر مخیر حضرات کے ذریعے اس کی تعلیم و ضروریات زندگی کا کوئ مناسب بندوبست کیا جا سکے۔دوستوں یہ ایک ننھے گل خان کی کہانی نہیں بلکہ اس ملک میں بسنے والے بے شمار سفید پوش لوگوں کی کہانیاں ایسی ہی ہیں فرق صرف اتنا سا ہے کہ و منظر عام پر نہیں آتی اور ان کی زندگی کا چراغ گل ہو جاتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا اپ میرے کہنے پر ان کی مدد کریں لیکن اتنا ضرور کہنا چاہوں گا جتنی ہو سکے اور جنتا اللہ نے آپکو آج دیا ہوا ہے اس میں سے اسکے بندوں پر بھی خرچ کیجئے شاید کسی غریب کے گھر کے چولے کے ساتھ اس کی زندگی اور بہتر مستقبل سے کئی مزید گھروں کے چولے بھی جل جائیں۔
ہم کتنا پیسہ اپنی ذاتی خواہشات پر لگا دیتے ہیں لیکن کسی غریب کی مدد کے لیے ہمارے ہاتھ اور حالات تنگ کیوں ہو جاتے ہیں۔کیوں
ننے گُل خان کی کہانی
بیوی کے رویے میں تبدیلی کیوں؟؟
ایک سر پھری بیوی جس نے خاوند کی ناک میں دم، اور اپنے اسلوب اور معاملات سے خاوند کا جینا حرام کیا ہوا تھا۔ اُس نے ایک دن خاوند کو صبح سویرے نیند سے جگایا اور نہایت احترام اور محبت سے کہا،میرے سرتاج؛ اُٹھیئے، صبح ہو گئی ہے۔ اور پھر شاندار تیار کیا ہوا ناشتہ خاوند کے بستر پر ہی لے آئی۔
خاوند جو پہلے ہی نیند سے جاگ کر بیوی کے رویہ پر حیرت زدہ بیٹھا تھا، ناشتہ دیکھ کر چُپ نہ رہ سکا اور پوچھ لیا،آج کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ یہ اچانک کیسی تبدیلی آ گئی ہے تم میں؟
بیوی نے کہا،کل ہمسایوں کے گھر میں تبلیغ والی بیبیاں آئی تھیں۔ انہوںنے بتایا کہ جس مرد کی بیوی بد زبان اور بد اخلاق ہو گی اللہ اُس مرد کی مغفرت فرما دے گا اور ہو سکتا ہے کہ اُس مرد کو بیوی کی بد اخلاقی اور بد تمیزی برداشت کرنے پر جنت میں بھی داخل کر دے۔
خاوند نے کہا، یہاں تک تو ٹھیک ہے، آگے؟
بیوی نے غراتے ہوئے کہا،جنت جانا ہے تو اپنے عملوں سے جا، میسنا بن کر میری وجہ سے کیوں جاتا ہے؟