Archive for October 2018
ایک بادشاہ نے اپنی رعایا پر ظلم کرکے بہت سا را خزانہ جمع کر لیا اور اسے شہر سے باہر ایک جنگل میں خفیہ غار میں چھپا دیا۔غار کے دروازے کی دو چابیاں تھیں ۔ایک بادشاہ کے پاس اور دوسرے اس کے وزیر کے پاس تھی ۔
ان دو کے علاوہ کسی کو بھی اس غار کا پتا نہیں تھا۔ایک دن صبح کے وقت بادشاہ خزانہ دیکھنے کے لیے غار کی طرف گیا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا ۔
خزانہ کمروں میں چاول اور گندم کے اَنبار کی طرح بکھرا پڑا تھا ۔ہیرے اور جواہرات الماری میں سجے ہوئے تھے۔
بادشاہ اس خزانے کو دیکھ کر بہت خوش ہوا،لیکن آتے وقت بادشاہ غار کا دروازہ ہی بند کرنا بھول گیا تھا۔اسی وقت وزیر کا اس غار کی طرف سے گزر ہوا ۔وزیر نے جب خزانے کا دروازہ کھلا دیکھا تو حیران رہ گیا ۔
وہ سمجھا کہ غلطی سے دروازہ کھلا رہ گیا ہے ۔
وہ سمجھا کہ غلطی سے دروازہ کھلا رہ گیا ہے ۔اسی خیال کے تحت اس نے دروازہ باہر سے بند کر دیا اور محل پہنچ کر یہ بات بھول گیا۔
جب بادشاہ ہیرے اور جواہرات کا معائنہ کرنے سے فارغ ہوا تو واپسی کا سوچا، لیکن جب وہ دروازے کی طرف پہنچا تو دیکھا کہ وہ تو بند تھا۔
بادشاہ نے دروازے کو خوب زور زور سے پیٹنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ چِلاّ تا بھی رہا ،لیکن اس ویران جنگل میں اس کی آواز سننے والا کوئی نہ تھا۔
وہ واپس اپنے خزانے کی طرف گیا اور ان سے دل بہلانے کی کوشش کرنے لگا ،لیکن بھوک اور پیاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ پھر دروازے کی طرف گیا،اس نے چینخنا چِلاّنا شروع کر دیا اور پھر تھک ہار کر وہ واپس جگہ پر آگیا ۔
بھوک اور پیاس کی شدت اتنی بڑھ گئی تھی کہ آخر وہ ہیروں سے بھیک مانگنے لگا:”اے قیمتی پتھر! مجھے ایک وقت کا کھانا دے دو۔“اسے ایسا لگا جیسے،وہ ہیرے اس کی سادگی پر زور زور سے ہنس رہے ہوں۔اس نے ایک ہیرا اُٹھا یا اور زور سے دیوار پر مارا،پھر موتیوں سے اپنی فریاد کرنے لگا:”اے قیمتی موتیوں ! مجھے ایک گلاس پانی دے دو۔
“اسے ایسا لگا کہ موتی اور جواہرات اس پر ہنس رہے ہوں ،بادشاہ کو بہت غصہ آیا ،لیکن بھوک غصے پر غالب آگئی۔
آخر بھوک کی شدت اتنی بڑھ گئی کہ وہ نڈھال ہونے لگا۔اس نے دنیا کو پیغام دینے کے لیے زمین پر کچھ لکھا ۔اس کے بعد بادشاہ کا انتقال ہو گیا۔
وزیر بادشاہ کو تلاش کرتا ہوا اس غار کی طرف سے گزر ہواتو اس نے سوچا کہ بادشاہ کے خزانے کا کچھ اَتا پتا کریں ۔جب وہ غا کے اند ر داخل ہوا تو دیکھا کہ بادشاہ مرا پڑا ہے اور زمین پر لکھا ہے:”دولت کسی کو زندگی نہیں دے سکتی
ان دو کے علاوہ کسی کو بھی اس غار کا پتا نہیں تھا۔ایک دن صبح کے وقت بادشاہ خزانہ دیکھنے کے لیے غار کی طرف گیا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا ۔
خزانہ کمروں میں چاول اور گندم کے اَنبار کی طرح بکھرا پڑا تھا ۔ہیرے اور جواہرات الماری میں سجے ہوئے تھے۔
بادشاہ اس خزانے کو دیکھ کر بہت خوش ہوا،لیکن آتے وقت بادشاہ غار کا دروازہ ہی بند کرنا بھول گیا تھا۔اسی وقت وزیر کا اس غار کی طرف سے گزر ہوا ۔وزیر نے جب خزانے کا دروازہ کھلا دیکھا تو حیران رہ گیا ۔
وہ سمجھا کہ غلطی سے دروازہ کھلا رہ گیا ہے ۔
وہ سمجھا کہ غلطی سے دروازہ کھلا رہ گیا ہے ۔اسی خیال کے تحت اس نے دروازہ باہر سے بند کر دیا اور محل پہنچ کر یہ بات بھول گیا۔
جب بادشاہ ہیرے اور جواہرات کا معائنہ کرنے سے فارغ ہوا تو واپسی کا سوچا، لیکن جب وہ دروازے کی طرف پہنچا تو دیکھا کہ وہ تو بند تھا۔
بادشاہ نے دروازے کو خوب زور زور سے پیٹنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ چِلاّ تا بھی رہا ،لیکن اس ویران جنگل میں اس کی آواز سننے والا کوئی نہ تھا۔
وہ واپس اپنے خزانے کی طرف گیا اور ان سے دل بہلانے کی کوشش کرنے لگا ،لیکن بھوک اور پیاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ پھر دروازے کی طرف گیا،اس نے چینخنا چِلاّنا شروع کر دیا اور پھر تھک ہار کر وہ واپس جگہ پر آگیا ۔
بھوک اور پیاس کی شدت اتنی بڑھ گئی تھی کہ آخر وہ ہیروں سے بھیک مانگنے لگا:”اے قیمتی پتھر! مجھے ایک وقت کا کھانا دے دو۔“اسے ایسا لگا جیسے،وہ ہیرے اس کی سادگی پر زور زور سے ہنس رہے ہوں۔اس نے ایک ہیرا اُٹھا یا اور زور سے دیوار پر مارا،پھر موتیوں سے اپنی فریاد کرنے لگا:”اے قیمتی موتیوں ! مجھے ایک گلاس پانی دے دو۔
“اسے ایسا لگا کہ موتی اور جواہرات اس پر ہنس رہے ہوں ،بادشاہ کو بہت غصہ آیا ،لیکن بھوک غصے پر غالب آگئی۔
آخر بھوک کی شدت اتنی بڑھ گئی کہ وہ نڈھال ہونے لگا۔اس نے دنیا کو پیغام دینے کے لیے زمین پر کچھ لکھا ۔اس کے بعد بادشاہ کا انتقال ہو گیا۔
وزیر بادشاہ کو تلاش کرتا ہوا اس غار کی طرف سے گزر ہواتو اس نے سوچا کہ بادشاہ کے خزانے کا کچھ اَتا پتا کریں ۔جب وہ غا کے اند ر داخل ہوا تو دیکھا کہ بادشاہ مرا پڑا ہے اور زمین پر لکھا ہے:”دولت کسی کو زندگی نہیں دے سکتی
نادشاہ کے ظلم کہانی
گاجر بوٹی(Parthinium)
آگاہی Awareness
ایک جڑی بوٹی پارتھینیم اردو گاجر بوٹی ۔
اس نے کوئی چھے سات برسوں میں پہلے سڑکوں کے گرد ڈیرہ جمایا اور پھر آہستہ آہستہ کھیتوں کا رُخ کیا۔ یہ ساؤتھ افریقہ اور لیٹن امریکہ اور انڈیا سے ہوتی ہوئی نارتھ پنجاب یہاں پہنچی ۔اسکا کوئی وقت نہیں وقت نہیں سردی گرمی بس اس کو جب بھی نمی ملتی ہے یہ سر اُٹھانا شروع کر دیتی ہے۔ سفید پھولوں والی یہ بوُٹی آپ کو سڑک کنارے نظر آتی ہوگی۔ یہ اتنی خطرناک بوٹی ہے۔ کہ اس کے ایک پودے کے ساتھ تقریباً ایک لاکھ بیج بنتے ہیں۔ اس کو کوئی ٹیمپریچر نہیں۔ اس کے آنے کی وجوہات میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی ہوئی اور جنگلات کی کمی ہیں اس کے ساتھ ہمارا ویجیٹیشن پیٹرن کم ہوا ہے۔ اور پلاسٹک بیگز کا ہماری زمین میں آنا اس کے اسباب ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اوپر گیا تو اس کو یہ موسم موافق آگیا۔ یہ میڈیسن پلانٹ کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ زیر زمین ایک ایسا ہارمون چھوڑتی ہے جو باقی پودوں کو بڑھنے سے روک دیتا ہے۔ اور دس سال تک اس کا بیج ضائع نہیں ہوتا۔ اور جب بھی اس کو نمی ملے مناسب درجہ حرارت ملے گا یہ اُگنا شروع ہو جائے گا۔ اس کے بیجوں کو جلانے سے بھی یہ ضائع نہیں ہوتے۔ یہ زمین کے اندر رہتا ہے یہ پھلدار پودوں کی اندر جو پولینیشن کا عمل ہے اس کو بھی ڈسڑب کر رہا ہے۔ جانور اس کو کھا رہے ہیں اور یہ دودھ میں شامل ہو رہا ہے ۔ اور انسانوں میں خوفناک الرجی کا سبب بن رہا ہے ۔ آزم کا سبب ہے۔ سینے کے انفیکشن ہو رہے ہیں اور ہمیون سسٹم کو خراب کر رہا ہے ۔اور الرجی کا شکایت کا سبب یہ پودا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے بہت بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ایک دو پودے اُکھاڑنے سے ایک تو الرجی اور دوسرا اس کی بیج لاکھوں میں ہوتے ہیں مشکل ہے۔ نائیجیریا میں 90%رقبے پر جب یہ پھیلی تو وہاں قحط آ گیا۔ آسڑیلیا کے 84 ہزار مربع میل رقبہ پر یہ پھیل گئی۔
اس کا حل کیا ہے جان چُھڑانے کا ۔۔۔۔
اُکھاڑنے سے پہلے جب اس پر پھول لگے ہوں تو ننگے ہاتھوں سے اور ناک کو ڈھانپے بغیر کبھی ہاتھ نہ لگائیں۔
بہتر طریقہ یہ ہے کِی پھول پر آنے سے پہلے اس کو اُکھاڑیں۔ اور جلا دیں یہ کام تو ہم اپنے اپنے لیول پر کر سکتے ہیں۔ لیکن بڑے پیمانے پر اس کو تلف کرنے لے لئے ایک insect جو اس کو کھاتا ہے اُس کو ان پر چھوڑا جائے۔ لیکن اب سوال یہ ہے اُس کو بھی لانے کے لیے فنڈ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ECO سسٹم اسکی وجہ سی پہلی ہی تباہ ہے۔ اور اگر ہم نے سنجیدگی سے اس پر کام نہ کیا تو ہمارا مستقبل روش نہیں ہوگا۔۔۔باہر سے ہم بیج اور اسپرے بڑی خوشی منگواتے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں سوچتے کہ اُنہیں ہماری پرواہ نہیں وہ اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ اور جو بیج ہم منگواتے ہیں وہ اُن میں وہ سب بھیجتےکہ ہم اتنے مہنگے بیج اور اسپرے منگوا کر جو اُگا رہے ہیں وہ Organic ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے
Information
کسی نے کیا خوب کہاتھا, اسپتال,پولیس تھانے اور کورٹ سے,خدا دشمن کو بھی بچائے, لیکن حقیقت دیکھئے, دشمن کو دعا دینے والا وہ انسان خود اپنے دشمن کو ان تین جگہوں تک لے آتا ہے, آج کورٹ روم میں ایک مقدمہ آخری مرحلے میں تھا, وہی عام سا بدنام سا مقدمہ جسکے بارے میں سن کر شرم تو آتی ہے لیکن کرتے ہوئے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی, اسے عرفِ عام میں ریپ کہتے ہیں, عجیب ذہنیت ہے, ریپ کرنے والے کے لئے سزائے موت کا مطالبہ کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی بہانے بہانے سے خود بھی وہی کر گزرتے ہیں, ایک بےحیا "ماڈرن لڑکی سے ریپ" کا مقدمہ چل رہا تھا جس نے اس وقت بھی کورٹ میں تنگ جینس اور چست ٹاپ لباس زیب تن کیا ہوا تھا, مقدمے کی سماعت کے بعد جج نے کنکلوزن کی بات کی تو ملزم کے وکیل نے کہا "جج صاحب اب میں اس کیس پر کچھ اور کہنا نہیں چاہتا, میں بس ایک بحث چھیڑنا چاہتا ہوں, بحث یہ کے آخر یہ اتنے ریپ ہو کیوں رہے ہیں, میرا مشاہدہ اور میرا تجربہ کہتا ہے جج صاحب یہ اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کی سزا ہے جو عورتوں کو ریپ کی شکل میں مل رہی ہے, میری ملت کی بیٹیوں کی عزت داؤ پر لگی ہے جج صاحب اور اسے داؤ پر لگانے والی خود میری ملت کی بیٹیاں ہیں" وکیل نے مظلومہ لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "غور سے دیکھئے میری ملت کی اس بیٹی کو جو اس وقت بھی بےہودہ لباس میں ملبوس بےحیائی کا مجسمہ بنی بیٹھی ہے, میری ملت کی اس بیٹی کے اس لباس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے اسے خود اپنی عزت کی کوئی فکر نہیں ہے, شاید یہ بھول گئی کے ایسے چست و تنگ لباس نہ صرف بےحیائی ہے بلکہ اللہ اور رسول سے بغاوت و نافرمانی بھی ہے اور اسی بات کی سزا ہے جو آج میری ملت کی بیٹیاں ریپ کی شکل میں بھگت رہی ہیں, جب تک وہ بےحیائی ترک نہیں کریں گی انہں اس سزا سے خود خدا بھی نجات نہیں دلا سکتا" وکیل کی خاموشی کے ساتھ ہی تالیوں کا ایک شور گونج اٹھا, اب باری تھی مظلومہ کے وکیل کی, لیکن وہ کہتا بھی تو کیا کہتا, ملزم کے وکیل نے جو بھی کہا تھا صحیح کہا تھا, اللہ اور رسول کی ضد میں اب وہ کیا دلیل پیش کرسکتا تھا, اسکی ہمت جواب دے چکی تھی, وہ اٹھ نہیں پارہا تھا, بوجھل کندھوں کو حرکت دیتے ہوئے جب اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو کسی نے اسکے کندھوں کو پیچھے سے دبوچ کر اسے بٹھادیا, یہ کوئی اور نہیں وہی مظلوم لڑکی تھی, اس نے کہا "بیٹھ جائیے وکیل صاحب بیٹھ جائیے, اب آپ سے نہیں لڑا جائےگا, کیونکہ آپ ہار مان چکے ہیں, اب یہ لڑائی میں خود لڑوں گی" اس نے آگے بڑھتے ہوئے جج سے اجازت مانگی تو جج نے اجازت دی, اس نے پہلے تو کورٹ میں موجود تماشائیوں پر ایک نظر ڈالی جو اسے نفرت اور طنز بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے, پھر اس نے ملزم کے وکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا " جج صاحب میں ملزم کے وکیل کی شکر گزار ہوں کے انہوں نے کم سے کم مجھے ملت کی بیٹی تو سمجھا, ورنہ تو لوگ عورت کو ایک لاوارث میراث سمجھ کر اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں, اس پر اپنی مردانگی کا ناجائز حق آزماتے ہیں, شکریہ وکیل صاحب, بہت بہت شکریہ, آپ کی اس ہمت افزائی سے میری خود اعتمادی کو یک گونہ قوت ملی ہے اور اسی قوت کے ساتھ یہاں موجود ہر شخص سے میں سوال کرنا چاہتی ہوں" اس نے کورٹ میں موجود لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا "اگر آپ کی بیٹی آپ کے سامنے آجائے تو آپ کی آنکھوں میں کیا ابھرےگا, اپنی بیٹی کے لئے پیار یا ایک لڑکی کے لئے ہوس, اگر آپ کی بیٹی آپ سے بات کرے اور آپ سے مدد چاہے تو آپ کیا دیکھیں گے, گزارش کرتی ہوئی اسکی آنکھیں یا دل و دماغ بہکانے والے اسکے ہونٹ, اگر آپ کی بیٹی آپ سے لپٹ کر روتی ہے توآپ کیا کریں گے, اسے سہارا دیں گے یا اسکا فائدہ اٹھائیں گے, اگر آپ کی بیٹی بےحیاء لباس میں آپکے سامنے آجاتی ہے تو آپ کیا کریں گے, اپنی آنکھیں پھیر لیں گے یا ہوس کا جنون لئے اس پر ٹوٹ پڑیں گے" ابھی اسکی بات ختم بھی نہیں ہوئی تھی کے وکیل نے بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہا "محترمہ, ملت کی بیٹی اور حوّا کی بیٹی میں فرق ہوتا ہے اس فرق کو سمجھیں آپ" مظلومہ نے جھٹ سے کہا "جانتی ہوں وکیل صاحب اچھے سے جانتی ہوں, اپنی بیٹی اور دوسروں کی بیٹی میں بڑا فرق ہوتا ہے, میں تو بس ملت کے سوئے ہوئے ایمان کو جگانے کی کوشش کررہی تھی, کیونکہ دنیا کی ہر قوم کی طرح یہ قوم بھی غلطیوں کو سدھارنا نہیں غلطیوں کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے, لیکن میں ایسا ہونے نہیں دونگی, ملت کی بیٹی ہوں نا اسلئے اپنی قوم کے ایمان کو جگاکے رہوں گی, کیا کہا تھا وکیل صاحب آپ نے, ریپ بےحیائی اور اللہ اور رسول کی نافرمانی کی سزا ہے, اگر اللہ اور رسول نے عورت کو جسم چھپانے کا حکم دیا ہے تو مردوں کو بھی نظریں جھکانے کا حکم دیا ہے, اگر عورت کی بےحیائی کی سزا ریپ ہے تو مرد کی بےحیائی کی سزا یہ ہے کہ اسکی آنکھیں گرم سلاخوں سے پھوڑ دی جائیں" اس آخری جملے سے سارا کورٹ روم گونج اٹھا, مظلومہ نے وکیل سے کہا "آپکی نظر میں یہ سزا ناگوار چیز ہے نا وکیل صاحب لیکن اس سے بھی شدید ناگوار چیز ہوتی ہے یہ ریپ جسے اتنی آسانی سے انجام دیا جاتا ہے مانو بچوں کا کھیل ہو" وہ رو رہی تھی, اسکی آنکھیں درد, غصہ, مایوسی, نا امیدی, لاچاری, بےچارگی, شرمندگی, اور نہ جانے کن کن جذباتوں کا پرتو لئے اشک بار ہو رہیں تھیں, وہ لگاتار رو رہی تھی, بس روئے جا رہی تھی, اسکی ہچکی بندھ رہی تھی, اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا "میرا ریپ ہوا تو میری ماں صدمے سے مر گئی اور میرے بابا شرم سے مر گئے, میری بہن کسی کو منہ نہیں دکھا سکتی اور میرا بھائی سر نہیں اٹھا سکتا, گھر سے لے کر خاندان اور محلے سے لے کر پورا سماج ہم کو دھتکار رہا ہے, غلطی میری تھی سزا مجھے دیتے میرے بےگناہ گھر والوں کے ساتھ ظلم کیوں, انہوں نے میری تربیت ویسی ہی کی جیسا سماج ہے, غلط تربیت پر گھر والوں کو سزا مل سکتی ہے تو غلط سماج کے لئے قوم کو سزا کیوں نہیں, مانا کے مردوں کو رجھانے کے لئے عورت بےپردہ ہوتی ہے تو کیا اسکا یہ مطلب نکالا جائے گا کہ وہ ریپ کروانا چاہتی ہے, یہ کہاں کی نفسیات ہے, مانا کے بےپردگی عورت کا قصور ہے بلکہ جرم ہے گناہ ہے گناہِ عظیم ہے, تو کیا مردوں کو یہ حق مل جاتا ہے کے سزا کے نام پر ریپ کردیں, اور اگر مردوں کو ریپ کا حق ہے تو عورتوں کو بھی مردوں کی آنکھیں پھوڑنے کا حق ملنا چاہئے, کیونکہ انصاف پر عورت کا بھی برابر کا حق ہے, اگر مردوں کو اللہ اور رسول کی نافرمانی کی کوئی سزا نہیں ملتی تو کیوں عورتوں کو صرف اتنی بڑی سزا...؟؟؟
ایک سنسنی خیز سناٹے کے ساتھ مقدمہ کی سماعت مکمل ہوچکی تھی اب جج کے فیصلے کا انتظار تھا,ساری دلیلوں اور واقعات کے مد نظر آپکا ضمیر جو فیصلہ کرے گا وہی جج کا فیصلہ ہوگا, براہِ کرم اپنے فیصلے سے آگاہ کریں
صرف اتنی بڑی سزا...؟؟؟
موبائل کے اندھا دھند استعمال کی ایک مثال 😂
کل میں واٹس ایپ استعمال کرتا کرتا اپنے گھر کی بجائے ہمسایئوں کے گھر داخل ہو گیا اور ٹی وی لاؤنج میں جا کر بیٹھا تو پتہ چلا یہ اپنا گھر نہیں ہے۔
ابھی میں کچھ سوچ ہی رھا تھا کہ، ہمسائے کی بیوی بھی اپنے کچن سے موبائل فون استعمال کرتے کرتے باہر نکلی، پہلے مجھے پانی دیا اور پھر چائے بھی دے دی، ساتھ ہی یہ بھی سوال کر ڈالا کہ "آج آفس سے جلدی کیسے؟"
میں ابھی جواب سوچ ہی رہا تھا کہ ہمسائی کا شوہر بھی فون استعمال کرتا کرتا گھر میں داخل ہوا جسے دیکھ کر میں پریشان ہو گیا کہ وہ مجھے اپنے گھر بیٹھا دیکھ کر کیا سوچے گا؟" لیکن جیسے ہی ہمسائے نے مجھے ٹی وی لاؤنج میں چائے پیتے دیکھا تو فوری مجھے سوری بولا اور گھر سے باہر چلا گیا۔😂😂😂🤣🤣🤣
موبائل کے نقصانات
وہ ایک قبر کے کنارے بیٹھا اپنے آپ ھی مُسکرا رھا تھا.
مریم کے سا تھ گُزرے حسِین لمحے اُس کے دماغ میں فلم کی طرح چل رھے تھے. وہ سارے خواب ایک ایک کر کے جینا چاھتے تھے وہ جن کی حقیقت ھونے کا سلسلہ شروع ھو چُکا تھا.
پامپ پامپ...
اچانک تیز ھارن کی اس آواز کے ساتھ اُس کی مُسکراھٹ اُداسی میں بدل گئی اور سارے خواب ٹوٹ گئے.
اُس اندھو ناک حادثے نے اُس کی پیاری بیوی مریم کو چھین لیا تھا. اُن کی شادی کو صرف سات ماہ ھوئے تھے اور مریم کی عمر صرف 22 سال تھی. آج مریم کی قبر پے بیٹھا اُس کی یادوں کو فل میں پیوست کر رھا تھا.
تم ابھی صرف 25 سال کے ھو ساری زندگی پڑی ھے تمہارے آگے کب تک مریم کی یاد میں اکیلے رھو گے. اور تمہارے اس اکیلے پن مریم خوش ھو گی کیا...؟
میری بات مانو شادی کے لیے ھاں کر دو.
اُس کی ماں اُس کی دوسری شادی کروانا چاھتی تھی. میں ابھی زھنی طور پر تیار نہیں ھوں. اُس نے کہا, آپ حِرا کی شادی کی فکر کریں اُس کے بعد میں بھی مان جاؤں گا...
حِرا اُس کی چھوٹی بہن کا نام تھا.
بیٹے کی بات سنتے ھی ماں نے حِرا کے رشتے دیکھنے شروع کر دیے جلد ھی ایک بہت اچھے خاندان میں اچھی طرح چھان بین کے بعد شادی کر دی گئی.
اب ماں نے اُس سے دوبارہ شادی کی بات چھڑی, وہ مان تو گیا پر اُس نے ایک شرط رکھ دی کے کسی طلاق یافتہ لڑکی سے شادی کرے گا تاکہ کسی کی بےرنگ زندگی میں رنگ بھر سکے. اور شرط سنتے ھی اُس کی ماں کا رنگ غیر ھو گیا اور غصے سے لال پیلی ھو گئی.
میں کسی آوارہ بدکردار لڑکی ھو ھرگز اپنی بہو نہ بناؤں گی...
بھلا شریف لڑکی کو طلاق ھوتی
طلاق تو تیز طرار فیطین اور آوارہ لڑکیوں کو ھوتی ھے. میں ھرگز کسی طلاق یافتہ گھر نہیں لاؤں گی.
اب تو ماں بیٹے میں اسی بات پر اَن بن رھنے لگی.
وہ اپنی ماں کو سمجھاتا کے ھمیشہ برائی لڑکی میں نہیں ھوتی, لڑکے بھی خراب ھو سکتے ھیں.
اسی اَن بن میں 18 مہینے کا کا عرصہ گزر گیا.
ایک دن اُس کی بہن کے ساس سُسر اور اُس کی بہن گھر آئے. حِرا بلکل ٹھیک لگ رھی تھی.
ارے اچھا ھوا آپ لوگ آگئے میں کافی دن سے حِرا سے ملنے کا سوچ رھی تھی لیکن آنا نہیں ھو پایا.
حِرا کی ماں نے کہاں.
اب سب کمرے میں موجود تھے حِرا کے سُسر بولے...
مجھے سمجھ نہیں آ رھا آپ لوگوں سے کیسے کہوں
دیکھیے بہن, حِرا بہت اچھی لڑکی ھے، ھمیں اس سے کوئی شکایت نہیں...
لیکن
اب ھمارا بیٹا شاید اس کے قابل نہیں رھا. شادی کے کچھ مہینوں بعد سے میرا بیٹا نا جانے کن لوگوں کے ساتھ بیٹھنے لگا. وہ نشے کا عادی بن چُکا ھے, شراب نوشی بھی کرتا ھے اور پہلے تو صرف لڑائی جھگڑا کرتا تھا اب حِرا پر ھاتھ بھی اُٹھانے لگا ھے. اسی وجہ سے ھم نے اُسے گھر سے نکال دیا ھے. اور بہت سوچ بچار کے بعد ھم نے یہ فیصلہ کیا ھے کہ آپ کی بیٹی کی زندگی خراب نہ کی جائےاسے ھم اپنے بیٹے سے طلاق دلوا دیں گے اور خود اس کی شادی کسی دوسری جگہ کروائیں گے...
ھم اپنے بیٹے کی وجہ سے بہت شرمندہ ھیں. اور حِرا کو اپنی بیٹی کی طرح کسی اور کے ساتھ رخصت کریں گے. اور.... اور
وہ بولتے گئے اور اُس کی ماں سکتے کی سی حالت میں بیٹھی سنتی رھی اور آنسو بہاتی رھی...
اب اُس کی اپنی بیٹی بھی طلاق یافتہ تھی. اور طلاق یافتہ لڑکیوں کے لیے اُس نے جو الفاظ ادا کیے تھے وہ اُس کے کانوں میں گونج رھے تھے.
اب ماں کو سمجھ آگیا تھا کہ بیٹا ٹھیک کہتا تھا ھر بار لڑکی قصور وار نہیں ھوتی...
چاھے جتنی بھی چھان بین کرلو لڑکیوں کی شادی نصیب سے ھوتی ھے. ایک جُوے کی طرح، قسمت اچھی تو لڑکی خوشحال. طلاق یافتہ ھونا کوئی بُرائی نہیں یہ تو قسمت کے کھیل ھیں اکثر بُرے سے بُرے اعمال والی لڑکیوں کے گھر بس جاتے ہیں اور اچھی سے اچھی لڑکیوں کے نہیں بس پاتے. تربیت سے پرکھیں صرف اس وجہ سے کوئی رائے قائم کر لینا کہ طلاق یافتہ ھے بہت زیادتی ھے...
معاشرے کا توازن برقرار رکھنے کے لیے ھمیں اپنی سوچ کُشادہ رکھنے کی ضرورت ھے.
story
ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک گاؤں میں ایک لڑکا رہتا تھا، بشیر. بہت نالائق اور نکھٹو طبیعت کا تھا...
اس کے اسکول میں استاد اور استانیاں اس سے نالاں رہتے تھے اور ساتھی مذاق اڑاتے تھے.
ایک دن، بشیر کی اماں اسکول آئیں اور استانی جی سے اپنے پیارے بیٹے کی پڑھائی پر بات کرنا چاہی.
استانی جی تو بھری بیٹھی تھیں. بشیر کی بے وقوفی اور پڑھائی میں غیر دلچسپی کی داستانیں بغیر لگی لپٹی رکھے، اس کی اماں کو سنا ڈالیں. کہ یہ اتنا نالائق ہے کہ اگر اسکا باپ زندہ ہوتا اور بینک کا مالک بھی ہوتا تب بھی اس کو نوکری پہ نا رکھوا پاتا.
بیوہ ماں پر سکتہ طاری ہو گیا. بغیر کچھ کہے، اپنے پیارے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور اسکول سے چلی گئی. نہ صرف اسکول، بلکہ وہ گاؤں بھی چھوڑ کر شہر چلی آئی.
وقت گزرتا گیا، گاؤں بڑھ کر قصبہ بن گیااور 25 سال گزر گئے. اسکول کی استانی جی کو دل میں شدید درد محسوس ہوا.
ہسپتال میں داخل کرایا لیکن درد بڑھتا رہا اور سب لوگوں نے، قریب بڑے شہر کے اچھے ہسپتال میں اوپن ہارٹ سرجری کا مشورہ دیا.
سب کے مشورے سے وہ شہر چلی آئیں اور سرجری کروالی. آپریشن کامیاب رہا اور انھیں کمرے میں لے جا یا گیا.
بیہوشی کی ادویات کے زیر اثر، انھوں نے آنکھ کھولی تو سامنے ایک خوبصورت نوجوان مسکراتا نظر آیا.
اسے پہچاننے کی کوشش کرتے ہوتے یکدم انکا رنگ نیلا پڑنے لگا انھوں نے انگلی سے ڈاکٹر کی طرف اشارہ کرکے کچھ کہنا چاہا لیکن شاید مصنوعی آکسیجن بند ہو چکی تھی.......
ڈاکٹر خوفزدہ اور پریشان ہو گیا اور اس نے آگے بڑھ کر انھیں سنبھالنے کی کوشش کی. لیکن استانی جی نے لمحوں میں ہی دم توڑ دیا.
ڈاکٹر کی آنکھوں میں آنسو تھے. وہ پلٹا تو دیکھا کہ ہسپتال کے بھنگی، بشیر نے، وینٹی لیٹر کا پلگ نکال کر اپنے ویکیوم کلینر کا پلک لگا دیا تھا.......
اب آپ اگر یہ سمجھ رہے تھے کہ خوبصورت ڈاکٹر وہی سادہ اور بے وقوف سا لڑکا، بشیر، تھا جس کی ماں نے اس کا ہا تھ پکڑ کر روتے ہوئے گاؤں چھوڑا تھا اور شہر آکر اس کو ڈاکٹر بنوا دیا تھا، تو پلیز جاگ جائیں.....
انڈین فلموں کے اثر سے باہر آجائیں.
حقیقی
زندگی میں بشیر،
حقیقی زندگی اور خواب
ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﻮ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﮯ ﭼﻨﮕﻞ ﺍﻭﺭ ﻏﻼﻣﯽ ﺳﮯ ﻧﺠﺎﺕ ﺩﻻ ﮐﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﺮﺯﻣﯿﻦ ﻣﻘﺪﺱ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺑﺎﺩ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺰﻗﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﻧﺒﯽ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﺳﻮﻧﭙﯽ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺰﻗﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍﯾﮏ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻭﺍﻗﻊ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺰﻗﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻮﺋﮯ۔
ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺟﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺰﻗﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ،ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﮨﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﮐﮧ ﻃﺎﻋﻮﻥ ﮐﯽ ﻭﺑﺎ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻣﻮﺕ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺧﻮﻑ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺑﺴﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﻮ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺮﮐﺖ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﺎﭘﺴﻨﺪ ﮨﻮﺋﯽ. ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺬﺍﺏ ﮐﮯ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﮩﺎﮌ ﮐﯽ ﺍٓﮌ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭗ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺦ ﻣﺎﺭﮐﺮ ﺑﻠﻨﺪ ﺍٓﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ “ﻣﻮﺗﻮﺍ ” ﯾﻌﻨﯽ ﺗﻢ ﺳﺐ ﻣﺮﺟﺎﻭٔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﮩﯿﺐ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯿﺎﻧﮏ ﭼﯿﺦ ﮐﻮ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺐ ﻣﺮﮔﺌﮯ۔ ان ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺳﺘﺮ ﮨﺰﺍﺭ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﻔﻦ ﻭ ﺩﻓﻦ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﻻﺷﯿﮟ ﮐﮭﻠﮯ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﮔﻮﺭﻭ ﮐﻔﻦ ﺍٓﭨﮫ ﺩﻥ ﺗﮏ ﭘﮍﯼ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﮍﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﺗﻌﻔﻦ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﺑﻮ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﮮ ﺟﻨﮕﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺪﺑﻮﺍﻭﺭ ﺗﻌﻔﻦ ﭘﮭﯿﻠﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻻﺷﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﺭﻧﺪﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﻮ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺱ ﺟﻨﮕﻞ ﮐﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺑﻨﺎ ﺩﯼ ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺰ ﻗﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﺍﺱ ﺟﻨﮕﻞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﻻﺷﯿﮟ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﺳﺘﺮ ﮨﺰﺍﺭ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻣﻮﺕ ﻧﺎﮔﮩﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﮔﻮﺭﻭﮐﻔﻦ ﻻﺷﻮﮞ ﮐﯽ ﻓﺮﺍﻭﺍﻧﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺭﻧﺞ ﻭ ﻏﻢ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺑﮭﺮ ﺍٓﯾﺎ . ﺍٓﺑﺪﯾﺪﮦ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺩﮐﮫ ﺑﮭﺮﮮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﮔﮍﮔﮍﺍ ﮐﺮ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺎﺩﺍﻧﯽ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻏﻠﻄﯽ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮐﮧ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﮈﺭ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺍٓﮔﺌﮯ . ﯾﮧ ﺳﺐ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﺷﻨﺪﮮ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﺲ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﮐﮫ ﺳﮑﮫ ﮐﮯ ﺷﺮﯾﮏ ﺗﮭﮯ . ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﻮﻡ ﮨﻼﮎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﮐﯿﻼﮦ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ . ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﯾﮧ ﻭﮦ ﻗﻮﻡ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﺗﯿﺮ ﯼ ﺣﻤﺪ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﯼ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﯼ ﮐﺒﺮﯾﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺧﻄﺒﮧ ﭘﮍﮬﺘﯽ ﺗﮭﯽ . ﺍٓﭖ ﺑﮍﮮ ﺳﻮﺯ ﺩﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﺩﻋﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍٓﭖ ﭘﺮ ﻭﺣﯽ ﺍﺗﺮﭘﮍﯼ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺣﺰﻗﯿﻞ (ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ) ﺍٓﭖ ﺍﻥ ﺑﮑﮭﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﮮ ﮨﮉﯾﻮ! ﺑﮯ ﺷﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﮐﭩﮭﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﻭٔ۔ ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺑﮑﮭﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﮐﺖ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺍٓﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﮨﮉﯾﺎﮞ ﺟﻤﻊ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﮈﮬﺎﻧﭽﮯ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ . ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﻭﺣﯽ ﺍٓﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺣﺰ ﻗﯿﻞ (ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ) ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﺩﯾﺠﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﮮ ﮨﮉﯾﻮ! ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮔﻮﺷﺖ ﭘﮩﻦ ﻟﻮ ۔ﯾﮧ ﮐﻼﻡ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯽ ﻓﻮﺭﺍً ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﮈﮬﺎﻧﭽﻮﮞ ﭘﺮ ﮔﻮﺷﺖ ﭘﻮﺳﺖ ﭼﮍﮪ ﮔﺌﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺑﺎﺭ ﯾﮧ ﻭﺣﯽ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯽ، ﺍﮮ ﺣﺰﻗﯿﻞ ﺍﺏ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺩﻭ ﮐﮧ ﺍﮮ ﻣُﺮﺩﻭ ! ﺧﺪﺍﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﺗﻢ ﺳﺐ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﮐﮭﺮﮮ ﮨﻮ ﺟﺎﻭٔ. ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺟﻤﻠﮧ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮨﯽ ﺳﺘﺮ ﮨﺰﺍﺭ ﻻﺷﯿﮞ چشم ﺯﺩﻥ ﻣﯿﮞ ﮑﮭﮍﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﺟﻨﮕﻞ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺍٓﮐﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍٓﺑﺎﺩ ﮨﻮﮔﺌﮯ . ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻤﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻣﺪﺕ ﺑﮭﺮ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﻧﺸﺎﻥ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮯ ﺟﺴﻤﻮﮞ ﺳﮯ ﺳﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﻻﺵ ﮐﯽ ﺑﺪﺑﻮﺑﺮﺍﺑﺮ ﺍٓﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺟﻮ ﮐﭙﮍﺍ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﻨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﮐﻔﻦ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﮐﻔﻦ ﻣﯿﻼ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﻣﯿﻼ ﭘﻦ ﺍﻥ ﮐﮯﮐﭙﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ. ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﯾﮧ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﺍﻥ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿں جو ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﺴﻞ ﺳﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ. (ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺭﻭﺡ ﺍﻟﺒﯿﺎﻥ)
ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﺎ ﻗﺮﺍﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮞ بھی ﺫﮐﺮﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﯽ ﺳﻮﺭۃ ﺑﻘﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪ ﻗﺪوﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ:
*ﺗﺮﺟﻤﮧ، ﺍﮮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺗﮭﮯ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﮈﺭ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﺮﺟﺎﻭٔ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﻓﺮﻣﺎﺩﯾﺎ ﺑﯿﺸﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﭘﺮ ﻓﻀﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﮐﺜﺮ ﻟﻮﮒ ﻧﺎﺷﮑﺮﮮ ﮨﯿﮟ.*
(ﺍﻟﻘﺮﺍٓﻥ : ﮐﻨﺰﺍﻻﯾﻤﺎﻥ )
حضرت حزقیل۶
Allama Iqbals Tomb East wall close-up July 1 2005
Tomb of Allama Iqbal
(Urdu: مزار اقبال ; Mazaar-e-Iqbal)
Muhammad Allama Iqbal’s Tomb.JPG
Mausoleum with Badshahi Mosque in the background
General information
Type Mausoleum
Architectural style Mughal
Location
Lahore, Punjab
Pakistan Pakistan
Design and construction
Architect Nawab Zain Yar Jang Bahadur
The Tomb of Allama Muhammad Iqbal, or Mazaar-e-Iqbal (Urdu: مزار اقبال) is a mausoleum located within the Hazuri Bagh, in the Pakistani city of Lahore, capital of Punjab province.
Iqbal was one of the major inspirations behind the Pakistan Movement, and is revered in Pakistan as Muffakir-e-Pakistan (The Thinker of Pakistan) or Shair-e-Mashriq (The Poet of the East). Iqbal died on 21 April 1938 in Lahore at the age of 60. Thousands of visitors come to the mausoleum every day to pay their respects to the poet-philosopher. It is said that Mustafa Kemal Atatürk sent earth collected from Maulana Rumi's tomb to be sprinkled on this grave.
History
Soon after Iqbal's death in April 1938, a committee was formed that was presided over by Chaudhary Mohammed Hussain. The initial round of the designs submitted by distinguished architects was not satisfactory. The committee suggested innovating a new combination rather than following a specific school of architecture. The final design, thus, broke away from Mughal tradition and comprised a combination of Afghan and Moorish architecture.
A major problem in the realization of this monument was a lack adequate funds. The committee resolved not to accept any donations from the local governments and state rulers, and so funds were raised through the contributions from Iqbal's friends, admirers and disciples.
Architecture
The architecture reflects a combination of Afghan and Moorish styles. The structure is entirely constructed of red sandstone, which was brought from Jaipur, British India, and building marble from Makrana, Rajputana. After the independence of Pakistan in 1947, construction was affected due to export restrictions of red stone from India. Six couplets of a ghazal are carved from Iqbal's peotical work Zabur-e-Ajam (Persian Psalms) on the mausoleum's interior surfaces. Outside, there is a small garden, distributed into small plots. The mausoleum was designed by Hyderabad Deccan's then Chief Architect, Nawab Zain Yar Jang Bahadur and took thirteen years to build at a cost of about one hundred thousand (Rs. 100,000) Pakistani rupees. The major reason for delay was the stoppage of red-stone from Jaipur in post-independence India
Iqbal's tomb
بلیک کامیڈی کا بادشاہ
جس کے ایک جملے نے ہنستے ہوئے مجمعے کو رُلا دیا
چند ہی لمحوں بعد پردہ اٹھا اور اندھیرے میں ایک روشن چہرہ جگمگایا جس کو دیکھ کر تماشائ اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو گئے اور تالیاں کی گونج میں اپنے پسندیدہ کامیڈین کا استقبال کیا۔
یہ گورا چٹا آدمی مشہور امریکی اسٹینڈ اپ کامیڈین ایمو فلپس تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر اپنے چاہنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور بڑی ہی گھمبیر آواز میں بولا :
دوستو میرا بچپن بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں گزرا تھا، مجھے بچپن سے ہی بائیکس کا بہت شوق تھا۔ میرا باپ کیتھولک تھا،وہ مجھے کہتا تھا کہ خدا سے مانگو وہ سب دیتا ہے۔
میں نے بھی خدا سے مانگنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی اور دن رات اپنے سپنوں کی بائیک کو خدا سے مانگنا شروع کر دیا۔
میں جب بڑا ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میرا باپ اچھا آدمی تھا لیکن تھوڑا سا بے وقوف تھا، اس نے مذہب کو سیکھا تو تھا لیکن سمجھا نہیں تھا، لیکن میں سمجھ گیا تھا.
اتنا کہہ کر ایموفلپس نے مائیکروفون اپنے منہ کے آگے سے ہٹا لیا اور ہال پر نظر ڈالی تو دور دور انسانوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے لیکن ایسی پِن ڈراپ سائلنس تھی کہ اگر اس وقت سٹیج پر سوئی بھی گرتی تو شاید اس کی آواز کسی دھماکے سے کم نہ ہوتی۔
ہر شخص ایمو فلپس کی مکمل بات سننا چاہتا تھا کیونکہ وہ بلیک کامیڈی کا بادشاہ تھا، وہ مذاق ہی مذاق میں فلسفوں کی گھتیاں سلجھا دیتا تھا۔ ایمو نے مائیکروفون دوبارہ اپنے ہونٹوں کے قریب کیا اور بولا میں بائیک کی دعائیں مانگتا مانگتا بڑا ہو گیا لیکن بائیک نہ ملی، ایک دن میں نے اپنی پسندیدہ بائیک چرالی۔
بائیک چرا کر گھر لے آیا اور اس رات میں نے ساری رات خدا سے گڑ گڑا کر معافی مانگی اور اگلے دن معافی کے بعد میرا ضمیر ہلکا ہو چکا تھا اور مجھے میری پسندیدہ بائیک مل چکی تھی اور میں جان گیا تھا کہ مذہب کیسے کام کرتا ہے۔
اتنا کہہ کر جیسے ہی ایمو فلپس خاموش ہوا تو پورا ہال قہقوں سے گونج اٹھا، ہر شخص ہنس ہنس کر بے حال ہو گیا اور کیا آپ جانتے ہیں اس لطیفے کو اسٹینڈ اپ کامیڈی کی تاریخ کے سب سے مشہور لطیفے کا اعزاز حاصل ہے۔
اتنا کہہ چکنے کے بعد ایمو فلپس نے پھر سے مائیکروفون ہونٹوں کے قریب کیا اور بولا اگر تم کبھی کسی مال دار شخص کو خدا سے معافی مانگتے دیکھو تو یاد رکھنا وہ مذہب سے زیادہ چوری پر یقین رکھتا ہے۔
اتنا کہہ کر ایمو فلپس پردے کے پیچھے غائب ہو گیا اور لاکھوں شائقین ہنستے ہنستے رو پڑے کیونکہ یہ ایسا جملہ تھا جس نے بہت سارے فلسفوں کی گھتیاں سلجھا دی تھیں۔
بلیک کامیڈی کا بادشاہ Black comedy Kind
ایک دفعہ ایک شہزادے کو کسی لکڑ ہارے کی بیٹی سے پیار ہو گیا ۔۔ وہی راتوں کی بے قراریاں اور وہی دن کے چین فرار ہوئے ۔۔
اس غریب لکڑہارے کے گھر شادی کا پیام بھیجا گیا ۔۔ وہاں سے "ناں" میں جواب آیا تھا۔
یہ کیسے ہو سکتا ؟
یہ کیا ہو گیا ؟
میں بادشاہ وقت کا بیٹا ۔۔
پوری دنیا میرے سامنے سر نگوں ہوتی ہے ۔۔
دن بھر ہزاروں نوکر چاکر میرے آگے پیچھے گھومتے ہیں۔۔
رات کو پریاں مجھے سلام کرتی ہیں۔۔۔
یہ کیسے ہو سکتا ایک غریب لکڑہارے کی بیٹی نے مجھے اپنانے سے انکار کر دیا ۔۔۔
اگلے دن جب وہ لڑکی جنگل میں لکڑیاں اکٹھی کر رہی تھی تو پہنچ گیا شہزادہ وقت اس tسے جواب مانگنے ۔۔۔
"اے غریب شہزادی۔۔۔۔ میں نے سنا ہے تو نے بادشاہ وقت کے بیٹے سے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔۔۔اس کی کیا وجہ ہوئی؟
اس لڑکی نے نگاہیں اٹھائیں ۔۔۔اس لڑکے کو عام سے بھیس میں بھی دیکھ کر پہچان گئ کہ یہی وہ شہزادہ ہے ۔۔!!
"شہزادہ سلامت میں نے آپ میں وہ چیز نہیں پائی جو مجھے میرے ہمسفر میں چاہئے"
شہزادہ حیران اور پریشان کہ اس کو کیسے پتہ چلا کہ میں وہی شہزادہ ہوں ۔۔۔
"تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں شہزادہ ہوں" اس نے سوال کرنا بہتر جانا
"کیوں کہ غریب لکڑ ہارے اپنے ساتھ اتنا سامان زندگی لے کر لکڑیاں کاٹنے نہیں جایا کرتے شہزادہ سلامت۔۔ان کے پاس ایک چادر اور ایک کلہاڑا ہوتا ہے بس"
لڑکی حسین ہونے کے ساتھ ساتھ زہین ھی تھی ۔۔۔۔
"تم اتنی ذہین ہو تو پھر مجھ سے شادی سے انکار کیوں" شہزادے کو کوفت ہوئی تھی ۔۔
"انکار کی وجہ بھی میری ذہانت ہی ہے شہزادہ سلامت ۔۔۔ "
" وہ کیسے لڑکی"
" شہزادہ سلامت میرے ہاتھ میں کل سے کچھ چبھ گیا ہے آپ یہ جھاڑ کاٹ کر دے دیں ۔۔ اس کے بعد میں آپ کو اس کا جواب دوں گی" ۔۔ عجیب گزارش تھی ۔۔۔
لیکن عشق تو آنکھوں اور دماغ پہ پٹیاں باندھ دیا کرتا ہے ۔۔۔
شہزادہ سلامت لگے اس جھاڑ کو کاٹنے ۔۔۔
کبھی آگے سے
کبھی پیچھے سے ۔۔۔
کبھی نیچے سے ۔۔۔اور کبھی اوپر سے ۔۔۔
ہاتھ زخمی ہو گئے ۔۔
پہنا ہوا چولا پھٹ گیا ۔۔۔
لیکن جھاڑ تو دور ایک ٹہنی بھی ہاتھ نہیں آئی ۔۔۔
اتنے میں ایک چھوٹا سا نو عمر بچہ آیا ۔۔اور اس نے ایک ہی وار سے اس جھاڑ کو کاٹ ڈالا ۔۔۔
اس کو کانٹا چھانٹا ۔۔۔چھوٹی چھوٹے گھٹے بنائے اور پیٹھ پر لاد کر اس لڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا ۔۔۔
"اب جواب دو لڑکی ۔۔ہم نے اتنی محنت بھی کی سارا دن ۔۔۔اب ہمیں جواب دے کے جاو"
"آپ کے سوال کا جواب ہماری اس فرمائش میں ہی پوشیدہ تھا شہزادہ سلامت ۔۔۔۔!!! آج آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ آپ کے باپ دادا کی بدولت ہے ۔۔۔خزانے ۔۔۔نمود و نمائش ۔۔۔ نوکر چاکر ۔۔۔ سب کچھ آپ کے ابا کا ہے ۔۔۔ آپ کے پاس اگر کچھ ہے تو وہ ہے آپ کا دماغ ۔۔۔آپ کا عقل ۔۔۔ اور آپ اس کو استعمال کرنا بھی نہیں جانتے ۔۔۔بس یہی وجہ ہے آپ سے شادی نہ کرنے کہ ۔۔۔ باپ دادا کی دی چیزیں ہماری میراث ہو سکتی ہیں۔۔۔ہماری ذات نہیں۔۔۔ اپنے لئے دنیا میں عزت خود کمانی پڑتی ہے اور وہ عقل سے ہی ملا کرتی۔۔۔۔۔ یہ واحد چیز ہے جو میراث میں نہیں ملتی۔۔۔۔۔۔ اپنی ذات کے لئے عزت خود کمانی پڑتی ہے" ..
Story urdu
کل پھیکے کمیار کے گھر کے سامنے ایک نئی چمکتی ہوئی گاڑی کھڑی تھی۔۔۔!
سارے گاؤں میں اس کا چرچا تھا۔۔۔!
جانے کون ملنے آیا تھا۔۔۔!
میں جانتا تھا پھیکا پہلی فرصت میں آ کر مجھے سارا ماجرا ضرور سناۓ گا۔۔۔! وہی ہوا شام کو بیٹھک میں آ کر بیٹھا ہی تھا کہ پھیکا چلا آیا۔۔۔! حال چال پوچھنے کے بعد کہنے لگا۔۔۔! صاحب جی کئی سال پہلے کی بات ہے آپ کو یاد ہے ماسی نوراں ہوتی تھی جو پٹھی پر دانے بھونا کرتی تھی۔۔۔! جس کا اِکو اِک پُتر تھا وقار۔۔۔! میں نے کہا ہاں یار میں اپنے گاؤں کے لوگوں کو کیسے بھول سکتا ہوں۔۔۔!
اللہ آپ کا بھلا کرے صاحب جی وقار اور میں پنجویں جماعت میں پڑھتے تھے۔۔۔! سکول میں اکثر وقار کے ٹِڈھ میں پیڑ رہتی تھی۔۔۔! صاحب جی اک نُکرے لگا روتا رہتا تھا۔۔۔! ماسٹر جی ڈانٹ کر کار بھیج دیتے تھے کہ جا حکیم کو دکھا اور دوائی لے۔۔۔! اک دن میں آدھی چھٹی کے وقت وقار کے پاس بیٹھا تھا۔۔۔! میں نے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھا اور اچارکھولا۔۔۔! صاحب جی آج وی جب کبھی بہت بھوک لگتی ہے نا۔۔۔! تو سب سے پہلے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھا ہی یاد آتا ہے۔۔۔! اور سارے پنڈ میں اُس پراٹھے کی خوشبو بھر جاتی ہے۔۔۔! پتہ نئیں صاحب جی اماں کے ہاتھ میں کیا جادو تھا۔۔۔!
صاحب جی وقار نے پراٹھے کی طرف دیکھا اور نظر پھیر لی۔۔۔! اُس ایک نظر نے اُس کی ٹِڈھ پیڑ کے سارے راز کھول دیئے۔۔۔! میں نے زندگی میں پہلی بار کسی کی آنکھوں میں آندروں کو بھوک سے بلکتے دیکھا۔۔۔! صاحب جی وقار کی فاقوں سے لُوستی آندریں۔۔۔! آنسوؤں کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھی تھیں جیسے کہتی ہوں۔۔۔! اک اتھرو بھی گرا تو بھرم ٹوٹ جاۓ گا۔۔۔! وقار کا بھرم ٹوٹنے سے پہلے میں نے اُس کی منتیں کر کے اُسے کھانے میں شریک کر لیا۔۔۔! پہلی بُرکی ٹِڈھ میں جاتے ہی وقار کی تڑپتی آندروں نے آنکھوں کے ذریعہ شکریہ بھیج دیا۔۔۔! میں نے چُپکے سے ہاتھ روک لیا اور وقار کو باتوں میں لگاۓ رکھا۔۔۔!اس نے پورا پراٹھا کھا لیا۔۔۔! اور پھراکثر ایسا ہونے لگا۔۔۔! میں کسی نہ کسی بہانے وقار کو کھانے میں شریک کرنے لگا۔۔۔! وقار کی بھوکی آندروں کے ساتھ میرے پراٹھے کی پکی یاری ہو گئی۔۔۔! اور میری وقار کے ساتھ۔۔۔! خورے کس کی یاری زیادہ پکی تھی۔۔۔؟ میں سکول سے کار آتے ہی بھوک بھوک کی کھپ مچا دیتا۔۔۔! ایک دن اماں نے پوچھ ہی لیا۔۔۔! پُتر تجھے ساتھ پراٹھا بنا کر دیتی ہوں کھاتا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔! اتنی بھوک کیوں لگ جاتی ہے۔۔۔؟ میرے ہتھ پیر پھول جاتے ہیں۔۔۔! آتے ساتھ بُھوک بُھوک کی کھپ مچا دیتا ہے۔۔۔! جیسے صدیوں کا بھوکا ہو۔۔۔!
میں کہاں کُچھ بتانے والا تھا صاحب جی۔۔۔! پر اماں نے اُگلوا کر ہی دم لیا۔۔۔! ساری بات بتائی اماں تو سن کر بلک پڑی اور کہنے لگی۔۔۔! کل سے دو پراٹھے بنا دیا کروں گی۔۔۔! میں نے کہا اماں پراٹھے دو ہوۓ تو وقار کا بھرم ٹوٹ جاۓ گا۔۔۔!میں تو کار آکر کھا ہی لیتا ہوں۔۔۔! صاحب جی اُس دن سے اماں نے پراٹھے کے ول بڑھا دیئے اور مکھن کی مقدار بھی۔۔۔! کہنے لگی وہ بھی میرے جیسی ماں کا پتر ہے۔۔۔! مامتا تو وکھری وکھری نہیں ہوتی پھیکے۔۔۔! مائیں وکھو وَکھ ہوئیں تو کیا۔۔۔؟
میں سوچ میں پڑ گیا۔۔۔! پانچویں جماعت میں پڑھنے والے پھیکے کو بھرم رکھنے کا پتہ تھا۔۔۔! بھرم جو ذات کا مان ہوتا ہے۔۔۔! اگرایک بار بھرم ٹوٹ جاۓ تو بندہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔! ساری زندگی اپنی ہی کرچیاں اکٹھی کرنے میں گزر جاتی ہے۔۔۔! اور بندہ پھرکبھی نہیں جُڑ پاتا۔۔۔! پھیکے کو پانچویں جماعت سے ہی بھرم رکھنے آتے تھے۔۔۔! اِس سے آگے تو وہ پڑھ ہی نہیں سکا تھا۔۔۔! اور میں پڑھا لکھا اعلی تعلیم یافتہ۔۔۔! مجھے کسی سکول نے بھرم رکھنا سکھایا ہی نہیں تھا۔۔۔!
صاحب جی اس کے بعد امّاں بہانے بہانے سے وقار کے کار جانے لگی۔۔۔! “دیکھ نوراں ساگ بنایا ہے چکھ کر بتا کیسا بنا ہے” وقار کی اماں کو پتہ بھی نہ چلتا اور اُن کا ایک ڈنگ ٹپ جاتا۔۔۔! صاحب جی وقار کو پڑھنے کا بہت شوق تھا پھر اماں نے مامے سے کہہ کر ماسی نوراں کو شہر میں کسی کے کار کام پر لگوا دیا۔۔۔! تنخواہ وقار کی پڑھائی اور دو وقت کی روٹی طے ہوئی۔۔۔! اماں کی زندگی تک ماسی نوراں سے رابطہ رہا۔۔۔! اماں کے جانے کے چند ماہ بعد ہی ماسی بھی گزر گئی۔۔۔! اُس کے بعد رابطہ ہی کُٹ گیا۔۔۔!
کل وقار آیا تھا۔۔۔! ولایت میں رہتا ہے جی واپس آتے ہی ملنے چلا آیا۔۔۔! پڑھ لکھ کر بہت بڑا افسر بن گیاہے۔۔۔! مجھے لینے آیا ہے صاحب جی کہتا تیرے سارے کاغزات ریڈی کر کے پاسپورٹ بنوا کر تجھے ساتھ لینے آیا ہوں
اور ادھر میری اماں کے نام پر لنگر کھولنا چاہتا ہے۔۔۔!
صاحب جی میں نے حیران ہو کر وقار سے پوچھا۔۔۔! یار لوگ اسکول بنواتے ہیں ہسپتال بنواتے ہیں تو لنگر ہی کیوں کھولنا چاہتا ہے اور وہ بھی امّاں کے نام پر۔۔۔؟
کہنے لگا۔۔۔! پھیکے بھوک بہت ظالم چیز ہے چور ڈاکو بنا دیا کرتی ہے۔۔۔! خالی پیٹ پڑھائی نہیں ہوتی۔۔۔! ٹِڈھ پیڑ سے جان نکلتی ہے۔۔۔! تیرے سے زیادہ اس بات کو کون جانتا ہے پھیکے۔۔۔! سارے آنکھیں پڑھنے والے نہیں ہوتے۔۔۔! اور نہ ہی تیرے ورگے بھرم رکھنے والے۔۔۔! پھر کہنے لگا۔۔۔! یار پھیکے تجھے آج ایک بات بتاؤں۔۔۔! جھلیا میں سب جانتا ہوں۔۔۔! چند دنوں کے بعد جب پراٹھے کے بل بڑھ گئے تھے۔۔۔! اور مکھن بھی۔۔۔! آدھا پراٹھا کھا کر ہی میرا پیٹ بھرجایا کرتا۔۔۔! اماں کو ہم دونوں میں سے کسی کا بھی بھوکا رہنا منظور نہیں تھا پھیکے۔۔۔! وقار پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔۔! اماں یہاں بھی بازی لے گئی صاحب جی۔۔۔!
اور میں بھی اس سوچ میں ڈُوب گیا کہ لُوستی آندروں اور پراٹھے کی یاری زیادہ پکی تھی یا پھیکے اور وقار کی۔۔۔! بھرم کی بنیاد پر قائم ہونے والے رشتے کبھی ٹوٹا نہیں کرتے۔۔۔!
پھیکا کہہ رہا تھا مُجھے امّاں کی وہ بات آج بھی یاد ہے صاحب جی۔۔۔! اُس نے کہا تھا۔۔۔! مامتا تو وکھری وکھری نہیں ہوتی پھیکے۔۔۔! مائیں وکھو وَکھ ہوئیں تو کیا۔۔۔! اُس کے ہاتھ تیزی سے پراٹھے کو ول دے رہے تھے۔۔۔! دو روٹیوں جتنا ایک پیڑا لیا تھا امّاں نے صاحب جی۔۔۔! میں پاس ہی تو چونکی پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔۔۔! روٹی بیلتے بیلتے نماز کا سبق پڑھاتی میرے ساتھ نکیاں نکیاں گلاں کرتی۔۔۔! آج بھی ویہڑے میں پھرتی نظر آتی ہے۔۔۔! پھیکا ماں کو یاد کر کے رو رہا تھا۔۔۔!
سورج کی پہلی کرن جیسا روشن چہرہ تھا اماں کا صاحب جی۔۔۔! باتیں کرتے کرتے پھیکا میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اُس پل میں لے گیا اور ایک دم میرے سامنے کسی پُرانْی فلم کی طرح سارا منظر بلیک اینڈ وائٹ ہو گیا۔۔۔! زندگی کے کینوس پر صرف ایک ہی رنگ بکھرا تھا مامتا کا رنگ۔۔۔!
سچ ہے ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہے۔۔۔! آج ملک کے حالات کرپشن اور مسائل کو دیکھتے ہوۓ میں سوچ رہا تھا۔۔۔! کاش سب مائیں پھیکے کی اماں جیسی ہو جائیں۔۔۔! میں ہر بار پھیکے سے ملنے کے بعد وطن کی بند کھڑکیوں سے چھن چھن کر آتی سنہری روشنی کو دیکھتا ہوں۔۔۔! روشنی جو راستہ تلاش کر ہی لیتی ہے۔۔۔ 🇵🇰
روشنی جو راستہ خود تلاش کرتی ہے
انسان امیدوں سے بندھا
ایک ضدی پرندہ ہے..
جو گھائل بھی امیدوں سے ہے.
اور زندہ بھی امیدوں پر ہے..
در حقیقت انسان کی اصل فطرت بہت صالح ہے-
الله تعالیٰ نے انسان کو بنایا اس طریقے سے ہے کہ وہ اگر اپنی اصل فطرت کے اوپر موجود گرد و غبار کو جھاڑ دینے میں کامیاب ہو جائے
تو اس کے اندر سے ایک خوبصورت شخصیت نمودار ہو جاتی ہے.۔💞💞💞
ایک ضدی پرندہ ہے..
جو گھائل بھی امیدوں سے ہے.
اور زندہ بھی امیدوں پر ہے..
در حقیقت انسان کی اصل فطرت بہت صالح ہے-
الله تعالیٰ نے انسان کو بنایا اس طریقے سے ہے کہ وہ اگر اپنی اصل فطرت کے اوپر موجود گرد و غبار کو جھاڑ دینے میں کامیاب ہو جائے
تو اس کے اندر سے ایک خوبصورت شخصیت نمودار ہو جاتی ہے.۔💞💞💞
اقوال
قابل بنیں انگریز نہیں۔
آپ ترکی اور ترک لوگوں کی ” جہالت ” کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ آپ کو شاید ہی پورے ترکی میں کوئی ایک ترک ڈاکٹر بھی ایسا نظر آئے جو انگریزی لفظ ” پین ” (درد) کے معنی جانتا ہو۔
اگر آپ ترکی نہیں بول سکتے یا آپ کے ساتھ کوئی ترجمان نہیں ہے تو پھر آپکا ترکی گھومنا خاصا مشکل ہے ۔
آپ چین کی مثال لے لیں ماؤزے تنگ کی ” جہالت ” کا یہ حال تھا کہ انھوں نے ساری زندگی کبھی انگریزی نہیں بولی۔ جب کبھی کوئی لطیفہ ان کو انگریزی میں سنایا جاتا ان کی آنکھوں کی پتلیوں تک میں کوئی جنبش نہیں ہوتی تھی اور جب کوئی وہی لطیفہ چینی زبان میں سناتا تو قہقہہ لگا کر ہنستے تھے۔ وہ ہمیشہ بولتے تھے کہ چینی قوم گونگی نہیں ہے۔
ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کو لے لیں ، ان کی ماں نے ساری زندگی گھروں میں کام کیا اور باپ نے اسٹیشن پر چائے بیچی وہ حالات کی وجہ سے گھر سے بھاگے دن رات محنت کے بعد گجرات کے وزیر اعلی بنے اور بعد ازاں ہندوستان جیسے بڑے ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ آپ نریندر مودی کی کوئی تقریر اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو وہ ہندی بولتے نظر آئینگے۔
ہندوستان کی خود اعتمادی کا یہ حال ہے کہ ان کی وزیر خارجہ سشما سوراج تک اقوام متحدہ کے اجلاس میں ہندی میں بات کرتی ہیں۔ صدر ترکی طیب اردوگان پاکستان آئے سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے ترکی زبان میں خطاب کیا ، پاکستانی قوم ، وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کو یہ بھی بتا گئے کہ کسی قوم کی ترقی کی علامت اس کی غیرت ہوتی ہے انگریزی نہیں۔
ہم مرعوبیت کے اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر ہمارا کوئی کرکٹر پاکستان سے باہر اردو میں بات کرلے تو ہم منہ چھپا چھپا کر ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی پرفارمنس کو کرکٹ سے ناپنے کے بجائے انگریزی سے ناپتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس خوبصورتی کا معیار گورا رنگ اور قابلیت کا معیار انگریزی ہے۔ ہمارے ملک میں بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کا واحد مقصد انگریزی ہوتا ہے۔
کبھی کبھی میں حیران ہوتا ہوں کہ امریکا اور برطانیہ میں ماں باپ بچوں کو کیوں اسکول میں داخل کرواتے ہونگے ؟ ہماری ذہنی غلامی کا تماشہ دیکھیں ہم نے اسکولز تک کو انگریزی اور اردو میڈیم بنایا ہے ۔ قوم کا غریب اور زوال پذیر طبقہ اردو پڑھے گا جبکہ امیر اور پیسے والا طبقہ انگریزی۔ دنیا کی معلوم دس ہزار سالہ تاریخ میں کسی قوم نے کسی غیر کی زبان میں ترقی نہیں کی۔ تخلیق ، تحقیق اور جستجو کا تعلق انگریزی سے نہیں ہوتا اور اگر آپ ان چیزوں کا تعلق بھی انگریزی سے جوڑ دینگے تو پھر وہی ہوگا جو اس ملک کے ساتھ ہو رہا ہے۔ آپ کو پورے ملک میں سوائے دو چار کے کوئی قابل ذکر سائنسدان ، کوئی تحقیق کرنے والا ڈاکٹر اور کچھ نیا ایجاد کرنے والا انجینئیر نہیں ملے گا۔ اس قوم کا نوجوان بھلا کیسے کچھ سوچ سکتا ہے جس کا واحد مقصد اپنی انگریزی درست کر کے اعلی نوکری حاصل کرنا ہو۔ جو لکیر کا فقیر بن چکا ہو۔
بنا سوچے سمجھے بس رٹے لگائے جائے اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ہمارے بچوں کو انگریزی آتی نہیں ہے اور اردو مشکل لگتی ہے۔ آپ کسی بھی نوجوان کو راستے میں روکیں اور اس کو انگریزی میں ایک درخواست لکھنے کا بول دیں وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے گا۔ اصل بیڑہ غرق اس موبائل فون کی رومن اردو نے کیا ہے۔ ہماری نئی نسل تو اردو کے الفاظ تک لکھنا بھول چکی ہے۔ حتی کہ موبائل کمپنیز کے آفیشل میسجز تک رومن اردو میں موصول ہوتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں ہے۔
بھائی ! دنیا میں اور کس زبان کے ساتھ یہ ظلم عظیم ہو رہا ہے کہ اس کے فونٹس کی موجودگی میں آپ کو ” رومن ” لکھنے کی ضرورت پڑ گئی ہے ؟ کسی میں دم نہیں ہے کہ واٹس ایپ یا میسج انگریزی مٰیں کرے ساری قوم اردو میں کرتی ہے لیکن ” رومن ” اردو میں۔ پلے اسٹور سے ایک ایپ ڈاؤن لوڈ کر کے اس پر اردو لکھنے میں کونسی جان جاتی ہے میں ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ہمیں لکھنی بھی اردو ہے اور اردو میں بھی نہیں لکھنی ہے۔
مجھے شاذ و نادر ہی کوئی والدین ایسے ملے ہوں کہ جنھوں نے اپنے بچے کے اخلاق ، کردار ، گفتگو اور تمیز تہذیب پر بات نہ کی ہو سارا وقت اس کی اخلاقی حالت کو روتے رہے اور آخر میں مدعا یہ ٹھہرا کہ آپ کسی طرح اس کی انگریزی ٹھیک کروائیں۔ میں نے اس ملک میں اور اس دنیا میں قابلیت کا کوئی نمونہ انگریزی کی وجہ سے نہیں دیکھا۔ چین ، جاپان ، ترکی ، جرمنی ، فرانس اور اب تیزی سے ابھرتا ہوا بھارت ان میں سے کونسے ملک نے انگریزی کی وجہ سے کامیابی اور ترقی کی منازل طے کی ہیں ؟
پاکستان کے سب سے بڑے موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ ، بزنس ٹائیکون ملک ریاض اور لکھاری جاوید چوہدری ان میں سے کس نے انگریزی کی وجہ سے ترقی کی ہے ؟ یا آپ نے کبھی ان کو انگریزی بولتے بھی سنا ؟ اس لیے خدارا خود بھی قابل بننے کی کوشش کیجیے اور بچوں کو بھی قابل بنائیے انگریز نہیں۔
اردو میری پہچان۔ میں ہوں پاکستان..
آپ ترکی اور ترک لوگوں کی ” جہالت ” کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ آپ کو شاید ہی پورے ترکی میں کوئی ایک ترک ڈاکٹر بھی ایسا نظر آئے جو انگریزی لفظ ” پین ” (درد) کے معنی جانتا ہو۔
اگر آپ ترکی نہیں بول سکتے یا آپ کے ساتھ کوئی ترجمان نہیں ہے تو پھر آپکا ترکی گھومنا خاصا مشکل ہے ۔
آپ چین کی مثال لے لیں ماؤزے تنگ کی ” جہالت ” کا یہ حال تھا کہ انھوں نے ساری زندگی کبھی انگریزی نہیں بولی۔ جب کبھی کوئی لطیفہ ان کو انگریزی میں سنایا جاتا ان کی آنکھوں کی پتلیوں تک میں کوئی جنبش نہیں ہوتی تھی اور جب کوئی وہی لطیفہ چینی زبان میں سناتا تو قہقہہ لگا کر ہنستے تھے۔ وہ ہمیشہ بولتے تھے کہ چینی قوم گونگی نہیں ہے۔
ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کو لے لیں ، ان کی ماں نے ساری زندگی گھروں میں کام کیا اور باپ نے اسٹیشن پر چائے بیچی وہ حالات کی وجہ سے گھر سے بھاگے دن رات محنت کے بعد گجرات کے وزیر اعلی بنے اور بعد ازاں ہندوستان جیسے بڑے ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ آپ نریندر مودی کی کوئی تقریر اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو وہ ہندی بولتے نظر آئینگے۔
ہندوستان کی خود اعتمادی کا یہ حال ہے کہ ان کی وزیر خارجہ سشما سوراج تک اقوام متحدہ کے اجلاس میں ہندی میں بات کرتی ہیں۔ صدر ترکی طیب اردوگان پاکستان آئے سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے ترکی زبان میں خطاب کیا ، پاکستانی قوم ، وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کو یہ بھی بتا گئے کہ کسی قوم کی ترقی کی علامت اس کی غیرت ہوتی ہے انگریزی نہیں۔
ہم مرعوبیت کے اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر ہمارا کوئی کرکٹر پاکستان سے باہر اردو میں بات کرلے تو ہم منہ چھپا چھپا کر ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی پرفارمنس کو کرکٹ سے ناپنے کے بجائے انگریزی سے ناپتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس خوبصورتی کا معیار گورا رنگ اور قابلیت کا معیار انگریزی ہے۔ ہمارے ملک میں بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کا واحد مقصد انگریزی ہوتا ہے۔
کبھی کبھی میں حیران ہوتا ہوں کہ امریکا اور برطانیہ میں ماں باپ بچوں کو کیوں اسکول میں داخل کرواتے ہونگے ؟ ہماری ذہنی غلامی کا تماشہ دیکھیں ہم نے اسکولز تک کو انگریزی اور اردو میڈیم بنایا ہے ۔ قوم کا غریب اور زوال پذیر طبقہ اردو پڑھے گا جبکہ امیر اور پیسے والا طبقہ انگریزی۔ دنیا کی معلوم دس ہزار سالہ تاریخ میں کسی قوم نے کسی غیر کی زبان میں ترقی نہیں کی۔ تخلیق ، تحقیق اور جستجو کا تعلق انگریزی سے نہیں ہوتا اور اگر آپ ان چیزوں کا تعلق بھی انگریزی سے جوڑ دینگے تو پھر وہی ہوگا جو اس ملک کے ساتھ ہو رہا ہے۔ آپ کو پورے ملک میں سوائے دو چار کے کوئی قابل ذکر سائنسدان ، کوئی تحقیق کرنے والا ڈاکٹر اور کچھ نیا ایجاد کرنے والا انجینئیر نہیں ملے گا۔ اس قوم کا نوجوان بھلا کیسے کچھ سوچ سکتا ہے جس کا واحد مقصد اپنی انگریزی درست کر کے اعلی نوکری حاصل کرنا ہو۔ جو لکیر کا فقیر بن چکا ہو۔
بنا سوچے سمجھے بس رٹے لگائے جائے اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ہمارے بچوں کو انگریزی آتی نہیں ہے اور اردو مشکل لگتی ہے۔ آپ کسی بھی نوجوان کو راستے میں روکیں اور اس کو انگریزی میں ایک درخواست لکھنے کا بول دیں وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے گا۔ اصل بیڑہ غرق اس موبائل فون کی رومن اردو نے کیا ہے۔ ہماری نئی نسل تو اردو کے الفاظ تک لکھنا بھول چکی ہے۔ حتی کہ موبائل کمپنیز کے آفیشل میسجز تک رومن اردو میں موصول ہوتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں ہے۔
بھائی ! دنیا میں اور کس زبان کے ساتھ یہ ظلم عظیم ہو رہا ہے کہ اس کے فونٹس کی موجودگی میں آپ کو ” رومن ” لکھنے کی ضرورت پڑ گئی ہے ؟ کسی میں دم نہیں ہے کہ واٹس ایپ یا میسج انگریزی مٰیں کرے ساری قوم اردو میں کرتی ہے لیکن ” رومن ” اردو میں۔ پلے اسٹور سے ایک ایپ ڈاؤن لوڈ کر کے اس پر اردو لکھنے میں کونسی جان جاتی ہے میں ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ہمیں لکھنی بھی اردو ہے اور اردو میں بھی نہیں لکھنی ہے۔
مجھے شاذ و نادر ہی کوئی والدین ایسے ملے ہوں کہ جنھوں نے اپنے بچے کے اخلاق ، کردار ، گفتگو اور تمیز تہذیب پر بات نہ کی ہو سارا وقت اس کی اخلاقی حالت کو روتے رہے اور آخر میں مدعا یہ ٹھہرا کہ آپ کسی طرح اس کی انگریزی ٹھیک کروائیں۔ میں نے اس ملک میں اور اس دنیا میں قابلیت کا کوئی نمونہ انگریزی کی وجہ سے نہیں دیکھا۔ چین ، جاپان ، ترکی ، جرمنی ، فرانس اور اب تیزی سے ابھرتا ہوا بھارت ان میں سے کونسے ملک نے انگریزی کی وجہ سے کامیابی اور ترقی کی منازل طے کی ہیں ؟
پاکستان کے سب سے بڑے موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ ، بزنس ٹائیکون ملک ریاض اور لکھاری جاوید چوہدری ان میں سے کس نے انگریزی کی وجہ سے ترقی کی ہے ؟ یا آپ نے کبھی ان کو انگریزی بولتے بھی سنا ؟ اس لیے خدارا خود بھی قابل بننے کی کوشش کیجیے اور بچوں کو بھی قابل بنائیے انگریز نہیں۔
اردو میری پہچان۔ میں ہوں پاکستان..
اردو زبان ہماری پہچان
جب فرانسیسی جنرل 'گورو' نےشام میں قدم رکھا تو صلاح الدین ایوبی کی قبر پر گیا اور قبر کو لات مار کر کہا، "اٹھو صلاح الدین! ہم پھر آ گئے"۔
جب فرانسیسی جنرل 'لیوتی' نے مراکش میں قدم رکھا تویوسف بن تاشفین کی قبر کے پاس گیا اور قبر کو لات مار کر کہا، "اے تاشفین کے بیٹے! اٹھو ہم تمہارے سرہانے پہنچ گئے ہیں"۔
جب صلیبیوں نے دوبارہ اندلس پر قبضہ کیا تو'الفانسو' نے حاجب منصور کی قبر پر سونے کی چارپائی بچھائی اور بیوی کو لے کر شراب پی کر لیٹ گیا اور کہا، "دیکھو میں نے مسلمانوں کی سلطنت پر قبضہ کرلیا ہے"۔
جب یونانی فوج ترکی میں داخل ہوئی تو یونانی فوج کے سربراہ 'سوفوکلس وینیزیلوس' خلافت عثمانیہ کے بانی عثمان غازی کی قبر کے پاس گیا اور کہا، "اٹھو اے بڑی پگڑی والے، اٹھو! اے عظیم عثمان اٹھو! دیکھو اپنے پوتوں کی حالت دیکھو! ہم نے اس عظیم سلطنت کا خاتمہ کیا جس کی تم نے بنیاد رکھی تھی!!! ہم تم سے لڑنے آئے ہیں"۔
یہ اسی یونانی جنرل کی تصویر ہے جو 1920 میں عثمان غازی کی قبر کے پاس کھڑا ہے۔
Qisa
اب صرف پناہ چاہتے ہیں 😞😞
مجھ سے اس بار ملو گے تو سمجھ جاؤ گے..!!!
۔ کیسا ہوتا ہے کسی شخص کا پتھر ہونا..!!!❤
کرو گے یاد اک دن دوستی کے زمانے کو
ہم چلے جائیں گے ایک دن واپس نہ آنے کو
ذکر جب چھیڑ دے گا کوئی محفل میں ہمارا
چلے جاؤ گے تنہائی میں __ آنسو بہانے کو..
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
ہم سے مِلنا ہے تو پھر شام سے پہلے آنا...!!!
چاندنی رات میں ہم گھر نہیں ٹھہرا کرتے...!!!
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
مُکر گئے ہو نا میری____ چاہتوں سے
میری عادتیں ______خراب کر کے
بہت کوشش میں کرتا ہوں،اندھیرے ختم ہوں لیکن۔۔۔
کہیں جگنو نہیں ملتا،کہیں پر چاند آدھا ہے💔
تمہارا ہونا بلکل اتــوار کے جیسا ہے!
کچھ سوجھتا ہی نہیں بس اچھا لگتا ہے!
ہمیں اس سرد موسم میں تیری یادیں ستاتی ہیں
تمھیں احساس ہونے تک یہ نومبر چلا جائے گا
برباد کرکے اس نے کہا مجهے پهر کرونگے محبت
زخمی زخمی تها دل لیکن ہونٹوں نے کہا انشااللہ
دیکھ کر میری قبر__ اس نے تڑپ کر کہا
نیا گھر کیا لے لیا اب تو دیکھنے بھی نہیں آتی
لوکی نوٹ نے کمادے
اساں یاریاں کمائیاں
نیند کے بیچ کوئی خواب کہاں کُھلتا ہے
آنکھ کُھلتی ہے تو حیرت کا جہاں کُھلتا ہے
یہ تو الفاظ ہی دے جاتے ہیں دھوکہ اکثر
اپنے چہرے سے کہاں زخمِ نہاں کُھلتا ہے
دِل کا دروازہ شکستہ ہے نہ جانے کب سے؟
جب بھی کُھلتا ہے ، بصد آ ہ و فغاں کھُلتا ہے
عشق ہے اور طلب کرتا ہے عُمروں کا خراج
ایک دستک سے میاں! در یہ کہاں کُھلتا ہے؟
بولتے جانے سے اظہار ہی ہوتا ہے فقط
چُپ کے آداب جو آیئں تو بیاں کھُلتا ہے
عُمر بھر عکس دکھاتا ہے ادھورا خاور
جب شکستہ ہو تو آیئنہِ جاں کُھلتا ہے
۔
بندگی، گر عشق میں شامل نہیں
یوں سمجھیے عشق وہ کامل نہیں
وہ کہیں، تو نذر ان کی نقدِ جاں
وہ کہیں تو کام کچھ مشکل نہیں
ڈوب کر ہیں پار، ہم شوریدہ سر
ناخدا ، درکار اب ساحل نہیں
درد سہنے ہیں مجھے انسان کے
اب درِ یزداں ، مری منزل نہیں
ہے اٹھا نسریںؔ وفاؤں سے خمیر
بے وفائی، اپنی آب و گِل نہیں
Poetry
بچپن میں سنتے تھے کہ زیادہ علم حاصل کرنے سے انسان پاگل ہوجاتا ہے۔
بہت دفعہ سوچا کہ علم انسان کو پاگل کیسے کر سکتا ہے؟ لیکن اب میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ واقعی ایسا ہوتاہے۔میں نے اس کا عملی مظاہرہ دیکھا ہے۔ اکثر گھر میں بذریعہ ڈاک کتابیں موصول ہوتی ہیں اور جس وقت پوسٹ مین آتا ہے عین اُسی وقت میرا مالی جیرا بھی پودوں کی تراش خراش میں مصروف ہوتاہے لہذا کتابیں وہی وصول کرتاہے۔میرے صحن میں لیموں کا ایک پودا ہے جو ہر موسم میں لیموں دیتا ہے۔ اُس رو ز میں کچھ لیموں توڑ رہا تھا کہ مین گیٹ کی بیل ہوئی۔
جیرا مالی پودوں کو پانی دے رہا تھا۔ اُس نے پانی کا نل بند کیا اور گیٹ سے باہر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو اُس کے ہاتھ میں ایک بنڈل تھا جس کی پیکنگ بتا رہی تھی کہ اندر کتابیں ہیں۔ میں نے وہیں پیکٹ کھولااور کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔جیرا مالی میرے قریب ہوا اور آہستہ سے بولا’’صاحب! زیادہ کتابیں پڑھنے سے علم کی تاپ چڑھ جاتی ہے‘‘۔
میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرایا’’یہ سب خیالی باتیں ہیں چاچا، علم کی وجہ سے ایسا نہیں ہوتا‘‘۔ یہ سنتے ہی جیرے مالی نے کندھے پر پڑا اپنا کپڑا اتار کر پسینہ پونچھا اور غور سے میری طرف دیکھا’’صاحب جی! ہمارے گاؤں میں ایک ایسا بندہ موجود ہے‘‘۔ میرے کان کھڑے ہوگئے۔’’کون ہے وہ؟‘‘۔ جیرے مالی نے دانت نکالے’’ماسٹر غاؤں غاؤں‘‘۔۔۔پتا چلا کہ جیرے کے گاؤں میں گذشتہ پچاس سالوں میں ایک ہی شخص پڑھا لکھا ہے اور وہ بھی پاگل ہوچکا ہے۔ شہر کے کسی سکول میں ہیڈ ماسٹر تھا‘ پھر واپس گاؤں چلا آیا اور اب ہاتھ میں اینٹ اٹھائے غاؤں غاؤں کرتا پھرتا ہے۔
جیرے مالی کا گاؤں دور دراز کے کسی علاقے میں تھالیکن مجھ پر تجسس کا بھوت سوا ر ہوچکا تھا۔ میں نے پوچھا کہ ’’چاچا کیا میں تمہارے گاؤں جاکر اُس ماسٹر کو دیکھ سکتا ہوں؟‘‘۔ جیرے نے کندھے اچکائے’’جب مرضی دیکھ لیں‘ لیکن ہمارے گاؤں کا راستہ بڑا خراب ہے، گاڑی نہیں جائے گی۔‘‘ میں جلدی سے بولا’’ٹرین یا بس تو جاتی ہوگی؟‘‘۔ اُس نے اثبات میں سرہلایا’’صرف بس جاتی ہے لیکن دو بسیں بدلنا پڑتی ہیں۔‘‘
میں نے جیرے سے اُس کے گاؤ ں کا ایڈریس لیا ‘ حوالے کے لیے ایک نام معلوم کیا اورہفتہ کی رات روانہ ہوگیا۔تین گھنٹے کے طویل سفر کے بعدگاؤں پہنچا تو شام ہوچکی تھی۔راستہ واقعی خراب تھا‘ پورا انجر پنجر ہل گیا۔ سخت تھکن ہورہی تھی لہذا گاؤں میں داخل ہوتے ہی چاچے جیرے کے بتائے ہوئے بندے کا پوچھا اور وہاں پہنچ گیا۔
یہ بندہ چاچے جیرے کا بہنوئی ’’نہلا‘‘ تھا اور گاؤں میں کافی اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ بڑی محبت سے ملا اور بیٹھک میں خاص طور پر میرے لیے بستر لگوایا۔ رات کے کھانے میں اُس سے گفتگو ہوئی تو میں نے جان بوجھ کر ماسٹر غاؤں غاؤں کا ذکر چھیڑ دیا۔ نہلے نے قہقہہ لگایا’’وہ تو جی پاگل ہے، اینٹ دے مارے گا‘‘۔ میں نے لسی کا ایک گھونٹ بھرا’’کیا وہ کسی کو بھی دیکھتے ہی اینٹ مار دیتاہے؟‘‘۔ نہلے نے نفی میں سرہلایا’’نہیں! ویسے تو باتیں کرتے رہیں تو لگتا ہی نہیں کہ پاگل ہے‘ لیکن بحث تھوڑی لمبی ہوجائے تو اچانک اینٹ اٹھا لیتا ہے‘‘۔
میں نے سرکھجایا‘ اگر واقعی ایسا تھا تو ماسٹر غاؤں غاؤں سے ملنا بہت ضروری تھا‘ میں جاننا چاہتا تھا کہ علم نے اُسے کیسے پاگل کیا۔نہلے سے طے پایا کہ صبح وہ گاؤں والوں کے ساتھ مجھے ماسٹر سے ملوانے لے جائے گا۔اگلے دن ناشتے کے بعد سارے گاؤں والے اکٹھے ہوگئے۔ اُن کے چہروں پر ایسی خوشی تھی گویا کسی میلے میں جارہے ہوں۔ میں نے نہلے سے پوچھا کہ یہ لوگ ساتھ کیوں جارہے ہیں؟ نہلے نے قہقہہ لگایا’’بس جی! شغل میلے کے شوقین ہیں، ویسے بھی یہ لوگ ماسٹر کے دماغ کو زیادہ سمجھتے ہیں، یہی ماسٹر سے بات چیت کریں گے ‘ آپ نے بس پیچھے رہ کر دیکھنا ہے کہ ماسٹر کیسے پہلے پاگلوں والی باتیں کرتا ہے اور پھر اینٹ اٹھاتاہے۔۔۔
‘‘میں نے ایک اہم سوال کیا’’کیا ماسٹر صاحب کے گھر والے بھی ساتھ رہتے ہیں؟‘‘۔ نہلا ہنس پڑا’’نہیں! وہ شہر میں ہیں‘ صرف ماسٹر ہی تماشا لگانے کے لیے یہاں رہ گیا ہے‘‘۔دس منٹ بعد ہم سب ماسٹر غاؤں غاؤں کی رہائش گاہ کے قریب پہنچ گئے۔ اُن کے گھر کے باہر شیشم کا ایک درخت لگا ہوا تھا ۔ میں نے دور سے دیکھا کہ گھنی چھاؤں میں ایک ساٹھ پینسٹھ سالہ عمر رسیدہ شخص کرسی پر بیٹھا‘ عینک لگائے کوئی کتاب پڑھ رہا ہے۔گاؤں کے سب لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر محتاط انداز میںآگے بڑھنے لگے۔
نہلے نے میرا ہاتھ پکڑ کر وہیں روک لیا۔ گاؤں والے ماسٹر کے تھوڑا اور پاس آگئے۔ شائد ماسٹر کو بھی لوگوں کی آمد محسوس ہوگئی تھی۔ اُس نے یکدم کتاب سے نظریں اٹھائیں اور لوگوں کی طرف دیکھا۔ کچھ دیر تک وہ اُنہیں گھورتا رہا‘ پھر اچانک اُس کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی’’آؤ آؤ۔۔۔کیا پوچھنے آئے ہو؟‘‘۔ مجمع میں سے ایک ہٹا کٹا نوجوان دو قدم آگے بڑھا’’ماسٹر صاحب!وہ پوچھنا تھا کہ چڑیل کو کیسے پکڑا جائے؟‘‘۔ ماسٹر نے کچھ لمحے بات سنی‘ پھر تیوری چڑھائی’’کون سی چڑیل‘ کیسی چڑیل‘ کوئی چڑیل وڑیل نہیں ہوتی‘‘۔ گاؤں والوں کی دبی دبی ہنسی نکل گئی۔ وہی نوجوان پھر بولا’’لیکن ماسٹر صاحب! جو بھی رات کو قبرستان والے راستے میں بوہڑ کے درخت کے نیچے سوتا ہے مرجاتا ہے‘ گاؤں کے تین لوگ مارے جاچکے ہیں‘‘۔ ماسٹر نے کتاب بند کی اور بڑے پیار سے بولا’’دیکھو! یہ تو پرائمری کا بچہ بھی بتا سکتا ہے کہ درخت دن کو آکسیجن اور رات کو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں اسی وجہ سے رات کو کسی بھی درخت کے نیچے سونے سے آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے اور سونے والے کی موت ہوجاتی ہے‘ اس میں کسی چڑیل کا کوئی ہاتھ نہیں‘‘۔ یہ سنتے ہی ساری فضا قہقہوں سے گونج اٹھی۔
نہلے نے فخریہ انداز میں میری طرف دیکھا’’دیکھا! کردی ناں پاگلوں والی بات‘‘۔میں نے ماسٹر کی طرف دیکھا جو لوگوں کے قہقہے سن کر دانت پیس رہا تھا۔ گاؤں کا رنگ ریز آگے بڑھا’’ماسٹر صاحب! کالا رنگ کیسے بنتا ہے؟‘‘۔ ماسٹر نے گردن اُس کی طرف گھمائی’’بھئی کالا رنگ کوئی رنگ نہیں ہوتا۔ یوں سمجھ لو جس چیز میں کسی رنگ کی ملاوٹ نہ ہو‘ یعنی بے رنگ ہو وہ کالی ہوتی ہے‘‘۔
سب لوگ ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہوگئے ۔۔۔ سوال کرنے والے نے بلند آواز کہا’’اوئے پاگل ماسٹرمیرے بال سفید ہیں‘ میں ہر چوتھے دن خضاب لگاتا ہوں پھر یہ سفید سے کالے کیسے ہوجاتے ہیں؟‘‘ قہقہے بلند ہوگئے۔ماسٹر ایک دم کھڑا ہوگیا۔ سب لوگ چوکنے ہوگئے۔ایک اور سوال آیا’’ماسٹر صاحب!چاند پر کھڑے ہوکر زمین پر پتھر پھینکا جائے تو کتنی دیر بعد نیچے گرتا ہے؟‘‘۔ ماسٹر کے لہجے میں بے بسی امڈ آئی’’دیکھو! چاند اوپر نہیں‘ زمین کے سامنے ہے‘ اس لیے چاندپر کھڑے ہوکر زمین نیچے نہیں اوپر نظر آئے گی۔‘‘سب کی بتیسیاں نکل آئیں ۔ یوں لگا جیسے پورے مجمع
کو کسی نے مشترکہ گدگدی کی ہو۔
ماسٹر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا‘ دیکھتے ہی دیکھتے وہ نیچے جھکا اور تیزی سے اینٹ اٹھا لی۔ایک ہڑبونگ سی مچی اور سب لوگ پیچھے ہٹ گئے۔ میں نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا یااور ماسٹر صاحب کے قریب پہنچ گیا۔ ماسٹرغضبناک نگاہوں سے مجھے گھورنے لگا۔ نہلا اور دیگر گاؤں والے چیخ چیخ کر مجھے پیچھے ہٹنے کا کہہ رہے تھے۔ میں نے ایک نظرگاؤں والوں پر ڈالی‘ پھرماسٹر صاحب کے پاس آکر پوری عقیدت سے ان کے اینٹ والے ہاتھ پر بوسہ دیا ’’ماسٹر صاحب! جہالت کا سمندر دلیل کے پتھر سے پار نہیں ہوتا۔‘‘۔۔۔ماسٹر صاحب کے ہونٹ کپکپائے‘ آنکھوں میں نمی سی تیر گئی اور ہلکی سی آواز آئی’غاؤں غاؤں‘
زیادہ علم حاصل کرنے سے انسان پاگل ہوجاتا ہے۔
تاریخی حقائق
شام،عراق اور فارس کو فتح کرنے والا عمر بن الخطاب (سنی ) تھے۔
سند ،ہند اور ماوراء النہر کو فتح کرنے والا محمد بن قاسم (سنی) تھے۔
شمالی افریقہ کو فتح کرنے والا قتیبہ بن مسلم(سنی) تھے۔
اندلس کو فتح کرنے والا طارق بن زیاد اور موسی بن نصیر دونوں(سنی ) تھے۔
قسطنطینیہ کو فتح کرنے والا محمد الفاتح( سنی) تھے۔
صقلیہ کو فتح کرنے والا اسد بن الفرات(سنی) تھے۔
اندلس کو مینارہ نور اور تہذیبوں کا مرکز بنانے والی خلافت بنو امیہ کے حکمران (سنی)تھے۔
تاتاریوں کو عین جالوت میں شکست دینے والا سیف الدین قطز اور رکن الدین بیبرس دونوں(سنی) تھے۔
صلیبیوں کو حطین میں شکست دینے والے صلاح الدین ایوبی(سنی) تھے۔
مراکش میں ہسپانویوں کا غرور خاک میں ملانے والا عبد الکریم الخطابی (سنی) تھے۔
اٹلی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے والے عمر المختار (سنی) تھے۔
چیچنیا میں روسی ریچھ کو زخمی کرنے اور گرزنی شہر کو فتح والے خطاب (سنی) تھے۔
افغانستان میں نیٹو کا ناگ زمین سے رگڑنے والے ملاعمر (سنی )تھے۔
عراق سے امریکہ کو بھاگنے پر مجبور کرنے والے ( سنی تھے)۔
فلسطین میں یہودکی نیندیں حرام کرنے والے (سنی) ہیں۔
ہم اپنے بچوں کو کیا بتائیں گے؟؟!!
حسین کو عراق بھلا کر کربلاء میں بے یارومدد گار چھوڑنے والے مختار ثقفی (شیعہ) تھے۔
عباسی خلیفہ کے خلاف سازش کر کے تاتاریوں سے ملنے والے ابن علقمی (شیعہ )تھے ۔
ہلاکوخان کا میک اپ کرنے والے نصیر الدین طوسی شعیہ تھا
تاتاریوں کو بغداد میں خوش آمدید کہنے والے(شیعہ) تھے۔
شام پر تاتاریوں کے حملوں میں مدد کرنے والے(شیعہ) تھے۔
مسلمانوں کے خلاف فرنگیوں کے اتحادی بننے والے فاطمیین( شیعہ) تھے۔
سلجوقی سلطان طغرل بیگ بساسیری سے عہد شکنی کرکے دشمنوں سے ملنے والے(شیعہ) تھے۔
فلسطین پر صلیبیوں کے حملے میں ان کی مدد کرنے والا احمد بن عطاء(شیعہ) تھے۔
صلاح الدین کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے والے کنز الدولۃ (شیعہ)تھے۔
شام میں ہلاکوں خان کا استقبال کرنے والا کمال الدین بن بدر التفلیسی (شیعہ) تھے۔
حاجیوں کو قتل کر کے حجر اسود کو چرانے والا ابو طاہر قرمطی (شیعہ) تھے۔
شام پر محمد علی کے حملے میں مدد کرنے والے ( شیعہ) تھے۔
یمن میں اسلامی مراکز پر حملے کرنے والے حوثی (شیعہ ) ہیں۔
عراق پر امریکی حملے کو خوش آمدید کر کے ان کی مدد کرنے والے سیستانی اور حکیم (شیعہ) ہیں۔
افغانستان پر نیٹو کے حملے کو خوش آئند کہہ کر ان کی مدد کرنے والے ایرانی حکمران (شیعہ) ہیں۔
شام میں امریکہ کی مدد اور بشار سے مل کر لاکھوں مسلمانوں کو قتل کر نے والے اور خلافت کی تحریک کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کرنے والے عراقی حکمران،ایرانی حکمران اور لبنان کی حزب اللہ (شیعہ) ہیں۔
خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر کے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے والا اسماعیل صفوی (شیعہ) تھے۔
برما کے مسلمانوں کے قتل پر بت پرستوں کی حمایت کا اعلان کرنے والا احمد نجاد( شیعہ ) ہے۔
شام کے لوگوں پر بشاری کی بمباری کی حمایت کرنے والا اور اس کو سرخ لکیر قرار دینے والا خامنئی (شیعہ) ہے۔
صحابہ کو گالیا دینے والے اور خلفائے راشدین اور اور امہات المومنین کے بارے میں شرمناک باتیں لکھنے والے قلم (شیعہ) ہیں۔
سلطان ٹیپو کے خلاف انگریز سے ملنے والے میر جعفر اور میر صادق (شیعہ) تھے۔
اور کفر اپنی تاریخ دہراتی ہے اس بار شام کے اہل سنت کے خون بہانے والے روسی کفر کا ساتھ بھی شیعوں نے دیا اور ایران روس کا مظبوط دوست بن ثابت کرگیا کہ شیعت کی بنیاد کفر پر ہے.
اگر سارے واقعات لکھے جائیں تو کئی جلدوں کی کتابیں تیار ہو سکتی ہیں، تم اپنی نسلوں کو کیا جواب دیں گے ؟؟!! اے شیعو
(منقول)
شیعہ اور سنیوں کی کارنامے ۔
پروفیسر نے ایک married لڑکی کو کھڑا کیا
اور کہا کہ آپ بلیک بورڈ پہ ایسے 25- 30 لوگوں کے نام لکھو جو تمہیں سب سے زیادہ پیارے ہوں.
لڑکی نے پہلے تو اپنے خاندان کے لوگوں کے نام لکھے، پھر اپنے سگے رشتہ دار، دوستوں، پڑوسی اور ساتھیوں کے نام لکھ دیے ...
اب پروفیسر نے اس میں سے کوئی بھی کم پسند والے 5 نام مٹانے کے لیے کہا ...
لڑکی نے اپنے دوستوں کے نام مٹا دیے ..
پروفیسر نے اور 5 نام مٹانے کے لیے کہا ...
لڑکی نے تھوڑا سوچ کر اپنے پڑوسيو کے نام مٹا دیے ...
اب پروفیسر نے اور 10 نام مٹانے کے لیے کہا ...
لڑکی نے اپنے سگے رشتہ داروں کے نام مٹا دیے ...
اب بورڈ پر صرف 4 نام بچے تھے جو اس کے ممي- پاپا، شوہر اور بچے کا نام تھا ..
اب پروفیسر نے کہا اس میں سے اور 2 نام مٹا دو ...لڑکی کشمکش میں پڑ گئی بہت سوچنے کے بعد بہت دکھی ہوتے ہوئے اس نے اپنے ممي- پاپا کا نام مٹا دیا ...
تمام لوگ دنگ رہ گئے لیکن پرسکون تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ کھیل صرف وہ لڑکی ہی نہیں کھیل رہی تھی بلکی ان کے دماغ میں بھی یہی سب چل رہا تھا.
اب صرف 2 ہی نام باقی تھے ..... شوہر اور بیٹے کا ...
پروفیسر نے کہا اور ایک نام مٹا دو ...
لڑکی اب سہمی سی رہ گئی ........ بہت سوچنے کے بعد روتے ہوئے اپنے بیٹے کا نام کاٹ دیا ...
پروفیسر نے اس لڑکی سے کہا تم اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ جاؤ ... اور سب کی طرف غور سے دیکھا ..... اور پوچھا: کیا کوئی بتا سکتا ہےکہ ایسا کیوں ہوا کہ صرف شوہر کا ہی نام بورڈ پر رہ گیا.
سب خاموش رہے .
پھر پروفیسر نے اسی لڑکی سے پوچھا کہ اسکی کیا وجہ ھے؟
اس نے جواب دیا کہ میرا شوہر ہی مجھے میرے ماں باپ، بہن بھائی، حتا کے اپنے بیٹے سے بھی زیادہ عزیز ھے. وہ میرے ھر دکھ سکھ کا ساتھی ھے، میں اس ھر وہ بات شیئر کر سکتی ھوں جو میں اپنے بیٹے یا کسی سے بھی شیئر نہیں کر سکتی،
میں اپنی زندگی سے اپنا نام مٹا سکتی ھوں مگر اپنے شوہر کا نام کبھی نی مٹا سکتی.
بیوی گھر کی ملکہ ھوتی ھے پاوں کی جوتی نھی،
Wife Aur Husband Ka Piyar
جسٹس کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں اور ایک لمبی چوڑی جاگیر کے مالک تھے۔ جاگیرداری کی یکسانیت سے اک دن اکتا کے بھانجے سے کہا، تیرے شہر میں سیشن جج کی کرسی خالی ہے۔ اس دور میں سیشن جج کی کرسی کا آرڈر وائسرائے جاری کرتے تھے۔ تو لاٹ صاحب کے نام چٹھی لکھ دے اور میں سیشن ججی کا پروانہ لے آتا ہوں۔ مہاراجہ سے چٹھی لکھوا کے مُہر لگوا کر ماموں لاٹ صاحب کے سامنے حاضر ہو گئے۔
وائس رائے نے پوچھا، نام؟ بولے، کھڑک سنگھ
تعلیم؟ بولے کیوں سرکار؟ میں کوئی اسکول میں بچے پڑھانے کا آرڈر لینے آیا ہوں۔
وائس رائے ہنسے، بولے سردار جی،قانون کی تعلیم کا پوچھا ہے۔ آخر آپ نے اچھے بروں کے درمیان تمیز کرنی ہے، اچھوں کو چھوڑنا ہے، بُروں کو سزا دینی ہے۔
کھڑک سنگھ مونچھوں کو تاؤ دے کر بولے، سرکار اتنی سی بات کے لئے گدھا بھر وزن کی کتابوں کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کام میں برسوں سے پنچائت میں کرتا آیا ہوں اور ایک نظر میں اچھے بُرے کی تمیز کر لیتا ہوں۔
وائس رائے نے یہ سوچ کر کہ اب کون مہاراجہ اور مہاراجہ کے ماموں سے الجھے، جس نے سفارش کی ہے وہی اسے بُھگتے۔ درخواست لی اور حکم نامہ جاری کر دیا۔ اب کھڑک سنگھ جسٹس کھڑک سنگھ بن کر پٹیالہ تشریف لے آئے۔
خدا کی قدرت پہلا مقدمہ ہی جسٹس کھڑک سنگھ کی عدالت میں قتل کا آ گیا۔ ایک طرف چار قاتل کٹہرے میں کھڑے تھے، دوسری طرف ایک روتی دھوتی عورت سر کا دوپٹہ گلے میں لٹکائے کھڑی آنسو پونچھ رہی تھی۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے دونوں طرف کھڑے لوگوں کو اچھی طرح دیکھ لیا۔ اتنے میں پولیس آفیسر آگے بڑھا اور جسٹس کھڑک سنگھ کے سامنے کچھ کاغذات رکھے اور کہنے لگا، مائی لارڈ یہ عورت کرانتی کور ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان چاروں نے مل کر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے خاوند کا خون کیا ہے۔
کیوں مائی؟ جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر کی بات بھی پوری نہیں سنی اور عورت سے پوچھنے لگے کیسے مارا تھا؟
عورت بولی، سرکار جو دائیں طرف کھڑا ہے اس کے ہاتھ میں برچھا تھا، درمیاں والا کسی لے کر آیا تھا اور باقی دونوں کے ہاتھ میں لاٹھیاں تھیں۔ یہ چاروں کماد کے اولے سے اچانک نکلے اور مارا ماری شروع کر دی۔ ان ظالموں نے میرے سر کے تاج کو جان سے مار دیا۔
جسٹس کھڑک سنگھ نے مونچھوں کو تاؤ دے کر غصے سے چاروں ملزموں کو دیکھا اور کہا کیوں بھئی، تم نے بندہ مار دیا؟
نہ جی نہ میرے ہاتھ میں تو بیلچہ تھا کسی نہیں، ایک ملزم بولا۔ دوسرا ملزم بولا جناب میرے پاس برچھا نہیں تھا ایک سوٹی کے آگے درانتی بندھی تھی پتے جھاڑنے والی۔
جسٹس کھڑک سنگھ بولے چلو، جو کچھ بھی تمھارے ہاتھ میں تھا وہ تو مر گیا نا۔
پر جناب ہمارا مقصد تو نہ اسے مارنا تھا، نہ زخمی کرنا تھا، تیسرا ملزم بولا۔
تمھاری ایسی کی تیسی، مقصد بھی تھا کوئی تمھارا؟ کرتا ہوں تم سب کا بندوبست، جسٹس کھڑک سنگھ بولے۔ کاغذوں کے پلندے کو پکڑ کر اپنے آگے کیا اور فیصلہ لکھنے ہی لگے تھے کہ ایک دم سے عدالت کی ایک کرسی سے کالے کوٹ والا آدمی اٹھ کر تیزی سے سامنے آیا، اور بولا، مائی لارڈ آپ پوری تفصیل تو سُنیں۔ میرے یہ مؤکل تو صرف اسے سمجھانے کے لئے اس کی زمین پہ گئے تھے۔ ویسے وہ زمین بھی ابھی مرنے والے کے نام منتقل نہیں اس کے مرے باپ سے۔ ان ہاتھ میں تو صرف ڈنڈے تھے، ڈنڈے بھی کہاں وہ تو کماد سے توڑے ہوئے گنے تھے۔ پھر ۔۔ ۔ ایک منٹ جسٹس کھڑک سنگھ نے کالے کوٹ والے کو روکا اور پولیس افسر کو بُلا کر پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے؟ سرکار یہ وکیل ہے، ملزمان کا وکیل صفائی، پولیس افسر نے بتایا۔
یعنی یہ بھی انہی کا بندہ ہوا نا جو ان کی طرف سے بات کرتا ہے، جسٹس کھڑک سنگھ نے وکیل سے کہا ادھر کھڑے ہو جاؤ قاتلوں کے ساتھ۔ اتنی بات کی اور کاغذوں کے پلندے پر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کر دیئے۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے فیصلہ لکھا تھا کہ چار قاتل اور پانچواں ان کا وکیل، پانچوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔
پٹیالے میں تھرتھلی مچ گئی، اوئے بچو، کھڑک سنگھ آ گیا ہے جو قاتل کے ساتھ وکیل کو بھی پھانسی دیتا ہے۔ کہتے ہیں جب تک جسٹس کھڑک سنگھ سیشن جج رہے، پٹیالہ ریاست میں قتل نہیں ہوا۔
کھڑک سنگھ کون تھے
*ايک بچے نے سمندر ميں اپنا جوتا کھو ديا
تو بلکتے ہوئے بچے نے سمندر کے ساحل پر لکھ ديا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔
يہ سمندر چور ہے
*اور کچھ ہی فاصلے پر ايک شکاری نے سمندر ميں جال پھينکا
اور بہت سی مچھليوں کا شکار کيا ۔ تو خوشی کے عالم ميں اسنے ساحل پر لکھ ديا کہ سخاوت کيلئے اسی سمندر کی مثال دی جاتی ہے ۔۔۔۔
اے بحرِ سخاوت ! سخاوت تم سے اور تم سخاوت سے ہو ۔
*نوجوان غوطہ خور نے سمندر ميں غوطہ لگايا اور وہ اسکا آخری غوطہ ثابت ہوا ۔
کنارے پر بيٹھی غمزدہ ماں نے ريت پر ٹپکتے ہوئے آنسوں کيساتھ لکھ ديا۔۔۔۔۔۔۔۔
يہ سمندر قاتل ہے..
*ايک بوڑھے شخص کو سمندر نے قیمتی موتی کا تحفہ ديا تو ۔۔
اسنے فرحت جذبات ميں آکر ساحل سمندر پر لکھ ديا۔۔۔۔۔
کہ يہ سمند کريم اور سخی ہے ۔ کرامت اس سے يہ اور يہ کرامت کی مثال ہے ۔
پھر ايک بہت بڑی لہر آئی اور اسنے سب کا لکھا ہوا مٹا ديا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگوں کی باتوں پر سر مت دھرو ہر شخص وہ کہتا ہے جہاں سے وہ ديکھتا ہے ۔ ۔۔
خطاؤں اور غلطيوں کو مٹا دو تاکہ دوستی اور بھائی چارگی چلتی رہے ۔۔۔
کبھی کسی کی خطا کی وجہ سے دوستی اور بھائی چارگی مت مٹلاؤ۔۔۔
جب تمہارے ساتھ برا سلوک کيا جائے جواب ميں اس سے بدتر کا مت سوچو
بلکہ نيکی کی نيت کر لو ۔۔۔۔
کيونکہ قرآن ميں رب العزت فرماتے ہيں ۔۔۔۔۔۔
" بھلائی اور برائی کبھی برابر نہيں ہوسکتی
اور برائی کو اچھے طريقے سے دور کر دو۰۰۰
ہر شخص وہی سوچتا ہے جو دیکھتا ہے
*غریب ہیلمٹ نہیں خرید سکتے*
ایک چھوٹی سی چڑیا جب اڑتے ہوئے جہاز سے ٹکراتی ہے اسکا حلیہ بگاڑ دیتی ہے ،
اربوں روپئے کا جنگی جہاز ایک کبوتر کے ٹکرانے سے لوہے اور راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتا ہے
موٹر سائیکل ایک جان لیوا سواری ہے دنیا میں جتنے بندے موٹر سائیکل نے کھائے اور کسی چیز نے اتنے قتل نہیں کیئے
پاکستان میں اوسط دس بندے روزانہ موٹر سائیکل پر مرتے ہیں اور موٹر سائیکل کو بچاتے ہوئے کئی حادثات ہو چکے ہیں
چاہیے تو یہ تھا کہ اس کو بین کر دیا جاتا۔ کیونکہ اسلام کا قانون ہے۔ جس چیز سے ایک آدمی کے بھی جان سے جانے کا خدشہ ہو وہ حرام ہے
خون اسی لیئے حرام ہے کہ اس میں بیماریاں ہوتی ہیں ،شراب اسی وجہ سے خنزیر کا گوشت اسی وجہ سے حرام ہے کہ اس میں انسانوں کیلئے نقصان ہے
انگریز کھاتے ہیں ،لیکن خالق کا حکم ہے وہ حرام ہے
تیز رفتار موٹرسائیکل جب کسی چیز سے ٹکراتا ہے ،مثلا ایک موٹر سائیکل 60 کلومیٹر کی رفتار سے جارہا ہے اس کے اوپر بیٹھا بندہ بظاہر ساکن ہے لیکن ارد گرد کے ماحول کے حساب سے اس بندے کی سپیڈ ساٹھ کلومیٹر ہوتی ہے اچانک روکاوٹ حادثے رزسٹنس اور بریک کی وجہ سے بندہ ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے بندہ موٹرسائیکل سے آگے نکل جاتا ہے
جب بھی کوئی چیز اڑتی ہے فلائی کرتی ہے اسکا بھارا حصہ پیچھے رہ جاتا ہے
*انسانی جسم کا بھارا حصہ چھاتی سے نیچے ہے ادھر ہڈی بھی وزنی ہے اور گوشت اور انتڑیاں بھی وزنی لہذا حادثے کی صورت میں سر خود بخود آگے ہو جاتا ہے*
اور سب سے پہلے سر ٹکراتا ہے سر پر چوٹ لگتے ہیں انسان بے ہوش ہوتا ہے یا ادھر ہی مر جاتا ہے
پاکستان کے نوے فیصد ڈاکٹروں کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ
ہیڈ انجری میں میڈیسن کونسی دینی ہے اور عموما غلط انجیکشن ہیڈ انجری میں سیدھا موت کے منہ میں پہنچا دیتا ہے
ٹریفک حادثے میں چونکہ پولیس کیس ہے اور پولیس مریض کو لانے والے کو پکڑتی ہے اسی لیئے ایسی صورت میں کوئی قریب ہی نہیں جاتا اور زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے بندہ مر جاتا ہے
*جو لوگ ہیلمٹ غریب ہونے کی وجہ نہیں خرید سکتے وہ پچاس ہزار کا موٹر سائیکل اسکی مرمت کیسے کرواتے ہیں*
پنجابی میں کہتے ہیں کہ *من حرام زادہ تے حجتاں ڈھیر*
قوم دو ہزار جرمانہ نہیں دے سکتی ظلم ہے ہاں مگر کفن دفن تنبو قناتیں ،کھانا وغیرہ سات جمعراتیں چالیسواں آسانی سے کر سکتی ہے
جنکے مر چکے ہیں ان سے پوچھیں کیا حالت ہوتی ہے
دس بارہ سال کے لڑکے موٹر سائیکل ایسے چلاتے ہیں جیسے ایف سولہ ہو 😡
دوسرا ایک المیہ ہے کسی پاکستانی کے قریب سے دوسرا گزر جائے یہ سمجھتے ہیں
ہماری عزت لے گیا ،وہ کیوں نکلا مجھ سے آگے ،پھر اس سے آگے نکلنے کے چکر میں بہت آگے نکل جاتے ہیں😓
جان بہت قیمتی ہے ،ہیلمٹ واحد سیفٹی ہے ،سر بچ جائے بندہ بچ جاتا ہے ہڈیاں جڑ جاتی ہیں دوسرا سر نہیں ملتا۔
اس لیئے بجائے اپنا سر توڑنے کے
ہزار کا ہیلمٹ توڑیں اور پاکستانی ڈاکٹروں سے بچیں
جان کا کوئی نعم البدل نہیں
غریب ہیلمٹ نہیں خرید سکتا۔۔ نقصانات
ایک دن میں نیکر پہن کر سپارہ پڑھنے مسجد چلا گیا مولوی صاحب غصے میں آ گئے بولے. ارے نالائق تم مسجد میں نیکر پہن کر کیوں آ گئے.
بے وقوف ایسے مسجد میں آؤ گے تو جہنم میں جاؤ گے۔
میں نے گھر آ کر ماں جی کو بتایا تو ماں بولی پتر مولوی صاحب غصے میں ھوں گے جو انہوں نے ایسا کہہ دیا ورنہ بیٹا جہنم میں جانے کے لئے تو بڑی سخت محنت کی ضرورت ھوتی ھے۔
جہنم حاصل کرنے کے لئے پتھر دل ھونا پڑتا ھے۔ جہنم لینے کے لئے دوسروں کا حق مارنا پڑتا ھے. قاتل اور ڈاکو بننا پڑتا ھے، فساد پھیلانا پڑتا ھے، مخلوقِ خدا کو اذیت دینی پڑتی ھے، نہتے انسانوں پر آگ اور بارود کی بارش کرنا پڑتی ھے. محبت سے نفرت کرنا پڑتی ھے۔
اس کے لئے ماؤں کی گودیں اجاڑنی پڑتی ہیں. رب العالمین اور رحمت العالمین سے تعلقات توڑنے پڑتے ہیں، تب کہیں جا کر جہنم ملتی ھے۔
تُو تو اتنا کاھل ھے کہ پانی بھی خود نہیں پیتا۔ تجھ سے یہ محنت کیونکر هو سکے گی؟
تو تو چڑیا کی موت پر ہفتوں روتا رھتا ھے پھر تُو اتنا پتھر دل کیسے بن سکتا ھے؟ بیٹا مولوی صاحب کی باتوں پر دھیان مت دینا ورنہ تمھارے اندر خدا کا صرف ڈر بیٹھے گا محبت نہیں ❤️
ماں کی شفقت
" ہم نے دو نوعمر بچوں کو لیا. ایک کو پرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیجا اور دوسرے کو مختلف چیزیں دے کر فروخت کرنے بھیجا. شام کو بھکاری بچہ آٹھ سو اور مزدور بچہ ڈیڑھ سو روپے کما کر لایا.
-
اس سماجی تجربے کا نتیجہ واضح ہے۔ دراصل بحیثیت قوم، ہم بھیک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور محنت مزدوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں. ہوٹل کے ویٹر، سبزی فروش اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں اور بھکاریوں کو دس بیس بلکہ سو پچاس روپے دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہوگئی۔
-
ہونا تو یہ چاہئے کہ مانگنے والوں کو صرف کھانا کھلائیں اور مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیں. ہمارے استاد فرماتے ہیں کہ بھکاری کو اگر آپ ایک لاکھ روپے نقد دے دیں تو وہ اس کو محفوظ مقام پر پہنچا کر اگلے دن پھر سے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے. اس کے برعکس اگر آپ کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کی مدد کریں تو اپنی جائز ضرورت پوری کرکے زیادہ بہتر انداز سے اپنی مزدوری کرے گا.
-
کیوں ناں، گھر میں ایک مرتبان رکھیں. بھیک کے لئے مختص سکے اس میں ڈالتے رہیں. مناسب رقم جمع ہو جائے تو اس کے نوٹ بنا کر ایسے آدمی کو دیں جو بھکاری نہیں. اس ملک میں لاکھوں طالب علم، مریض، مزدور اور خواتین ایک ایک روپے کے محتاج ہیں. صحیح مستحق کی مدد کریں تو ایک روپیہ بھی آپ کو پل صراط پار کرنے کے لئے کافی ہو سکتا ہے. یاد رکھئے، بھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہو سکتی، بلکہ بڑھتی ہے.
بھیک مانگنے اور محنت کرنےواے بچے
پاکستان میں اشارہ توڑنے کا جرمانہ صرف #2ہزارروپے ہیں، شکریہ ادا کرنا چاہیے عمران خان کا آپکو پتہ ہے باہر ملکوں میں کتنا جرمانہ ہیں، آئیے آپکو چند ممالک کی اشارہ توڑنے کے قوانین بتاتے ہیں،
(1) سعودی عرب میں #3000ریال پاکستانی تقریبا #1لاکھ روپے کھ جرمانہ ہے۔2سیکنڈ کے بعد موبائل پر میسیج آجاتا ہے ۔اور اس میں معافی بھی نہیں ہے ۔غلط پارکنگ پر #100ریال اور روڈ کے مختلف مقامات پر سپیڈ کی خلاف ورزی پر #300ریال جرمانہ ہے۔بیلٹ نہ بندنے پر 150 ریال جرمانہ ہے۔
(1)اور دوبئی میں #4000درہم اور 15دن کےلیے گاڑی بند جبکہ پیدل سنگل توڑنے کا #420درہم ھے اب پتا نہی پاکستاں عوام کو کیوں تکلیف ھے قانوں فالو کرنے سے
( 3)قطر میں #6000دینار اور ساتھ میں 7دن جیل بھی
4عمان میں 50ریال جرمانہ 2 دن جیل
متحدہ عرب آمارات میں چند ٹریفک قوانین اور جرمانہ /مخالفہ /فائن
1۔3000 درہم سنگل توڑنے کا
2۔سیٹ بیلٹ 450 درہم
3۔اوورٹیک 500 سے 900 درہم
4۔ڈرائیور کا موبائل فون استعمال 300 درہم
5۔بغیر لائسنس500 درہم6 ماہ قید ڈی پورٹ
6۔اوور سپیڈ300درہم
7۔زبیرہ کراسنگ پر بغیر اشارے 🔺 کے پیدل چلنے پر 400سے 450درہم تک
اورلیبر کی اوسط تنخواہ 900 درہم سے 3000 درہم تک اس میں غلطی سے شاید میری نالج میں کمی ہو سکتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے یہاں مقیم اوورسیز پاکستانی بہتر جانتے ہیں۔
قانون کی بالا دستی ہی انکی ترقی کیوجہ ہے۔
پاکستان میں تو لوگ ایسے لوگ بول رہےجیسےان پہ ڈاکہ ڈالا گیا۔
قانون پر عمل کر کے دیکھیں اگر ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہوا تو پھر کہنا ۔
شکریہ ادا کرو پٹواریوں عمران خان کا یہ آپکے جان بچانے کیلئے لگایا ہے،
پاکستان میں اشارہ توڑنے کا جرمانہ
Admin : Adding Sana to the group.
Ibrahim : Hi Sana welcome to the group.
Admin : Making u additional admin
Sana : Hi guys am new to the city
Mustafa : Hi Sana dont worry , am there...any problems i will be the solution
Irfan : Hi Sana.. tell me if you have any problem, will arrange a solution for u
Hafeez : Hi Sana, if you need anything tell me, it will be arranged.
Akbar : Hi Sana mera bhai Faisalabad me hee hai , koi bhi problem ho i will manage it for you..
Sana : Thanx guys for your support
Akber : Sana whats your full name..
Sana : Rana Sana Ullah .
Akber left
Hafeez left
Irfan left
Ibrahim left
Mustafa left
Admin left...
Sana is the admin now
😜😝
Ibrahim : Hi Sana welcome to the group.
Admin : Making u additional admin
Sana : Hi guys am new to the city
Mustafa : Hi Sana dont worry , am there...any problems i will be the solution
Irfan : Hi Sana.. tell me if you have any problem, will arrange a solution for u
Hafeez : Hi Sana, if you need anything tell me, it will be arranged.
Akbar : Hi Sana mera bhai Faisalabad me hee hai , koi bhi problem ho i will manage it for you..
Sana : Thanx guys for your support
Akber : Sana whats your full name..
Sana : Rana Sana Ullah .
Akber left
Hafeez left
Irfan left
Ibrahim left
Mustafa left
Admin left...
Sana is the admin now
😜😝