Posted by : Social media masti
Thursday, October 11, 2018
بچپن میں سنتے تھے کہ زیادہ علم حاصل کرنے سے انسان پاگل ہوجاتا ہے۔
بہت دفعہ سوچا کہ علم انسان کو پاگل کیسے کر سکتا ہے؟ لیکن اب میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ واقعی ایسا ہوتاہے۔میں نے اس کا عملی مظاہرہ دیکھا ہے۔ اکثر گھر میں بذریعہ ڈاک کتابیں موصول ہوتی ہیں اور جس وقت پوسٹ مین آتا ہے عین اُسی وقت میرا مالی جیرا بھی پودوں کی تراش خراش میں مصروف ہوتاہے لہذا کتابیں وہی وصول کرتاہے۔میرے صحن میں لیموں کا ایک پودا ہے جو ہر موسم میں لیموں دیتا ہے۔ اُس رو ز میں کچھ لیموں توڑ رہا تھا کہ مین گیٹ کی بیل ہوئی۔
جیرا مالی پودوں کو پانی دے رہا تھا۔ اُس نے پانی کا نل بند کیا اور گیٹ سے باہر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو اُس کے ہاتھ میں ایک بنڈل تھا جس کی پیکنگ بتا رہی تھی کہ اندر کتابیں ہیں۔ میں نے وہیں پیکٹ کھولااور کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔جیرا مالی میرے قریب ہوا اور آہستہ سے بولا’’صاحب! زیادہ کتابیں پڑھنے سے علم کی تاپ چڑھ جاتی ہے‘‘۔
میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرایا’’یہ سب خیالی باتیں ہیں چاچا، علم کی وجہ سے ایسا نہیں ہوتا‘‘۔ یہ سنتے ہی جیرے مالی نے کندھے پر پڑا اپنا کپڑا اتار کر پسینہ پونچھا اور غور سے میری طرف دیکھا’’صاحب جی! ہمارے گاؤں میں ایک ایسا بندہ موجود ہے‘‘۔ میرے کان کھڑے ہوگئے۔’’کون ہے وہ؟‘‘۔ جیرے مالی نے دانت نکالے’’ماسٹر غاؤں غاؤں‘‘۔۔۔پتا چلا کہ جیرے کے گاؤں میں گذشتہ پچاس سالوں میں ایک ہی شخص پڑھا لکھا ہے اور وہ بھی پاگل ہوچکا ہے۔ شہر کے کسی سکول میں ہیڈ ماسٹر تھا‘ پھر واپس گاؤں چلا آیا اور اب ہاتھ میں اینٹ اٹھائے غاؤں غاؤں کرتا پھرتا ہے۔
جیرے مالی کا گاؤں دور دراز کے کسی علاقے میں تھالیکن مجھ پر تجسس کا بھوت سوا ر ہوچکا تھا۔ میں نے پوچھا کہ ’’چاچا کیا میں تمہارے گاؤں جاکر اُس ماسٹر کو دیکھ سکتا ہوں؟‘‘۔ جیرے نے کندھے اچکائے’’جب مرضی دیکھ لیں‘ لیکن ہمارے گاؤں کا راستہ بڑا خراب ہے، گاڑی نہیں جائے گی۔‘‘ میں جلدی سے بولا’’ٹرین یا بس تو جاتی ہوگی؟‘‘۔ اُس نے اثبات میں سرہلایا’’صرف بس جاتی ہے لیکن دو بسیں بدلنا پڑتی ہیں۔‘‘
میں نے جیرے سے اُس کے گاؤ ں کا ایڈریس لیا ‘ حوالے کے لیے ایک نام معلوم کیا اورہفتہ کی رات روانہ ہوگیا۔تین گھنٹے کے طویل سفر کے بعدگاؤں پہنچا تو شام ہوچکی تھی۔راستہ واقعی خراب تھا‘ پورا انجر پنجر ہل گیا۔ سخت تھکن ہورہی تھی لہذا گاؤں میں داخل ہوتے ہی چاچے جیرے کے بتائے ہوئے بندے کا پوچھا اور وہاں پہنچ گیا۔
یہ بندہ چاچے جیرے کا بہنوئی ’’نہلا‘‘ تھا اور گاؤں میں کافی اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ بڑی محبت سے ملا اور بیٹھک میں خاص طور پر میرے لیے بستر لگوایا۔ رات کے کھانے میں اُس سے گفتگو ہوئی تو میں نے جان بوجھ کر ماسٹر غاؤں غاؤں کا ذکر چھیڑ دیا۔ نہلے نے قہقہہ لگایا’’وہ تو جی پاگل ہے، اینٹ دے مارے گا‘‘۔ میں نے لسی کا ایک گھونٹ بھرا’’کیا وہ کسی کو بھی دیکھتے ہی اینٹ مار دیتاہے؟‘‘۔ نہلے نے نفی میں سرہلایا’’نہیں! ویسے تو باتیں کرتے رہیں تو لگتا ہی نہیں کہ پاگل ہے‘ لیکن بحث تھوڑی لمبی ہوجائے تو اچانک اینٹ اٹھا لیتا ہے‘‘۔
میں نے سرکھجایا‘ اگر واقعی ایسا تھا تو ماسٹر غاؤں غاؤں سے ملنا بہت ضروری تھا‘ میں جاننا چاہتا تھا کہ علم نے اُسے کیسے پاگل کیا۔نہلے سے طے پایا کہ صبح وہ گاؤں والوں کے ساتھ مجھے ماسٹر سے ملوانے لے جائے گا۔اگلے دن ناشتے کے بعد سارے گاؤں والے اکٹھے ہوگئے۔ اُن کے چہروں پر ایسی خوشی تھی گویا کسی میلے میں جارہے ہوں۔ میں نے نہلے سے پوچھا کہ یہ لوگ ساتھ کیوں جارہے ہیں؟ نہلے نے قہقہہ لگایا’’بس جی! شغل میلے کے شوقین ہیں، ویسے بھی یہ لوگ ماسٹر کے دماغ کو زیادہ سمجھتے ہیں، یہی ماسٹر سے بات چیت کریں گے ‘ آپ نے بس پیچھے رہ کر دیکھنا ہے کہ ماسٹر کیسے پہلے پاگلوں والی باتیں کرتا ہے اور پھر اینٹ اٹھاتاہے۔۔۔
‘‘میں نے ایک اہم سوال کیا’’کیا ماسٹر صاحب کے گھر والے بھی ساتھ رہتے ہیں؟‘‘۔ نہلا ہنس پڑا’’نہیں! وہ شہر میں ہیں‘ صرف ماسٹر ہی تماشا لگانے کے لیے یہاں رہ گیا ہے‘‘۔دس منٹ بعد ہم سب ماسٹر غاؤں غاؤں کی رہائش گاہ کے قریب پہنچ گئے۔ اُن کے گھر کے باہر شیشم کا ایک درخت لگا ہوا تھا ۔ میں نے دور سے دیکھا کہ گھنی چھاؤں میں ایک ساٹھ پینسٹھ سالہ عمر رسیدہ شخص کرسی پر بیٹھا‘ عینک لگائے کوئی کتاب پڑھ رہا ہے۔گاؤں کے سب لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر محتاط انداز میںآگے بڑھنے لگے۔
نہلے نے میرا ہاتھ پکڑ کر وہیں روک لیا۔ گاؤں والے ماسٹر کے تھوڑا اور پاس آگئے۔ شائد ماسٹر کو بھی لوگوں کی آمد محسوس ہوگئی تھی۔ اُس نے یکدم کتاب سے نظریں اٹھائیں اور لوگوں کی طرف دیکھا۔ کچھ دیر تک وہ اُنہیں گھورتا رہا‘ پھر اچانک اُس کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی’’آؤ آؤ۔۔۔کیا پوچھنے آئے ہو؟‘‘۔ مجمع میں سے ایک ہٹا کٹا نوجوان دو قدم آگے بڑھا’’ماسٹر صاحب!وہ پوچھنا تھا کہ چڑیل کو کیسے پکڑا جائے؟‘‘۔ ماسٹر نے کچھ لمحے بات سنی‘ پھر تیوری چڑھائی’’کون سی چڑیل‘ کیسی چڑیل‘ کوئی چڑیل وڑیل نہیں ہوتی‘‘۔ گاؤں والوں کی دبی دبی ہنسی نکل گئی۔ وہی نوجوان پھر بولا’’لیکن ماسٹر صاحب! جو بھی رات کو قبرستان والے راستے میں بوہڑ کے درخت کے نیچے سوتا ہے مرجاتا ہے‘ گاؤں کے تین لوگ مارے جاچکے ہیں‘‘۔ ماسٹر نے کتاب بند کی اور بڑے پیار سے بولا’’دیکھو! یہ تو پرائمری کا بچہ بھی بتا سکتا ہے کہ درخت دن کو آکسیجن اور رات کو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں اسی وجہ سے رات کو کسی بھی درخت کے نیچے سونے سے آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے اور سونے والے کی موت ہوجاتی ہے‘ اس میں کسی چڑیل کا کوئی ہاتھ نہیں‘‘۔ یہ سنتے ہی ساری فضا قہقہوں سے گونج اٹھی۔
نہلے نے فخریہ انداز میں میری طرف دیکھا’’دیکھا! کردی ناں پاگلوں والی بات‘‘۔میں نے ماسٹر کی طرف دیکھا جو لوگوں کے قہقہے سن کر دانت پیس رہا تھا۔ گاؤں کا رنگ ریز آگے بڑھا’’ماسٹر صاحب! کالا رنگ کیسے بنتا ہے؟‘‘۔ ماسٹر نے گردن اُس کی طرف گھمائی’’بھئی کالا رنگ کوئی رنگ نہیں ہوتا۔ یوں سمجھ لو جس چیز میں کسی رنگ کی ملاوٹ نہ ہو‘ یعنی بے رنگ ہو وہ کالی ہوتی ہے‘‘۔
سب لوگ ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہوگئے ۔۔۔ سوال کرنے والے نے بلند آواز کہا’’اوئے پاگل ماسٹرمیرے بال سفید ہیں‘ میں ہر چوتھے دن خضاب لگاتا ہوں پھر یہ سفید سے کالے کیسے ہوجاتے ہیں؟‘‘ قہقہے بلند ہوگئے۔ماسٹر ایک دم کھڑا ہوگیا۔ سب لوگ چوکنے ہوگئے۔ایک اور سوال آیا’’ماسٹر صاحب!چاند پر کھڑے ہوکر زمین پر پتھر پھینکا جائے تو کتنی دیر بعد نیچے گرتا ہے؟‘‘۔ ماسٹر کے لہجے میں بے بسی امڈ آئی’’دیکھو! چاند اوپر نہیں‘ زمین کے سامنے ہے‘ اس لیے چاندپر کھڑے ہوکر زمین نیچے نہیں اوپر نظر آئے گی۔‘‘سب کی بتیسیاں نکل آئیں ۔ یوں لگا جیسے پورے مجمع
کو کسی نے مشترکہ گدگدی کی ہو۔
ماسٹر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا‘ دیکھتے ہی دیکھتے وہ نیچے جھکا اور تیزی سے اینٹ اٹھا لی۔ایک ہڑبونگ سی مچی اور سب لوگ پیچھے ہٹ گئے۔ میں نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا یااور ماسٹر صاحب کے قریب پہنچ گیا۔ ماسٹرغضبناک نگاہوں سے مجھے گھورنے لگا۔ نہلا اور دیگر گاؤں والے چیخ چیخ کر مجھے پیچھے ہٹنے کا کہہ رہے تھے۔ میں نے ایک نظرگاؤں والوں پر ڈالی‘ پھرماسٹر صاحب کے پاس آکر پوری عقیدت سے ان کے اینٹ والے ہاتھ پر بوسہ دیا ’’ماسٹر صاحب! جہالت کا سمندر دلیل کے پتھر سے پار نہیں ہوتا۔‘‘۔۔۔ماسٹر صاحب کے ہونٹ کپکپائے‘ آنکھوں میں نمی سی تیر گئی اور ہلکی سی آواز آئی’غاؤں غاؤں‘