Posted by : Social media masti Thursday, October 11, 2018

سب کہتے ہیں کہ ہمارا بادشاہ تاج محل بنا رہا تھا اور یورپ درسگاہوں کی بنیاد رکھ رہا تھا. اچھا کیا واقعی آپ لوگوں نے اس دور یعنی مغل ایمپائر کے انتظامی، سماجی اور معاشی ڈھانچے کا مطالعہ کیا ہے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت کی دنیا کے مجموعی جی ڈی پی کے 25% کا مالک تنہا ہندوستان تھا؟ اور امریکہ آج انتہائی کوشش اور عالمی استحصال کے باوجود تقریباً 24% سے آگے نہیں جا سکا. نہیں یقین آ رہا! اچھا چلئے اپنے وکی پیڈیا پر اکنامک ٹائم لائن آف انڈیا پر نظر ڈال لیجیے.

واپس آتے ہیں تاج محل پر. دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا گیا ہے نا اس کو؟ کس وجہ سے، سوچا آپ نے کبھی؟ دنیا میں ہزاروں دیگر عمارات موجود ہیں. یورپ بھرا پڑا ہے تاریخی عمارات سے پھر تاج محل ہی کیوں؟ دوستو! ایک دریا کہ کنارے دلدلی مٹی پر اس قدر عظیم الشان، خوبصورت اور دیرپا عمارت کیا لیٹسٹ ٹیکنالوجی کے بغیر بنانا ممکن تھا. یہ کارنامہ ہے ہمارے انجینئرز، آرکیٹیکٹز اور کاریگروں کا. جو کہ اس وقت اپنے عروج پر تھے. انڈیا بھرا پڑا تھا تعلیمی اداروں سے اس وقت. ہر فن کے ماہر کاریگر، استاد اور طالب علم موجود تھے. امیر ترین بینالاقوامی کاروباری افراد موجود تھے. بہترین عدلیہ کا نظام دیہاتوں تک پنچایت کی شکل میں موجود تھا. ذرائع آمد ورفت تھے. امن اور استحکام تھا. انتظامیہ مضبوط تھی. ٹیکس متوازن تھے اور عوام خوشحال تھی.

بس فرق یہ ہے کہ ہم یورپ کی طرح ڈاکو نہیں تھے. ہم نے کسی خطے اور ملک پر حملہ نہیں کیا اور کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے اجداد اور حاکم گوروں کی طرح عیار اور مکار نہیں تھے.

یاد رکھیے کہ یورپ کی تمام ترقی ہندوستان کی لوٹی ہوئ دولت کی بدولت ہے. ان کے چہروں کی لالیاں ہمارے خون کی سرخیاں سے عبارت ہیں. ہم اس دور کی سپر پاور تھے. تعلیم میں اخلاق میں اور ٹیکنالوجی میں. ہاں جنگی جنوں اور دوسروں کو لوٹنے کا جنون نہیں تھا.

درست تاریخ کا مطالعہ ہمیں اس خود ساختہ احساس کمتری سے نکال کر دوبارہ سے ترقی کے راستے پر ڈال سکتا. ضرورت صرف درست نظریہ اور عمل کی ہے.

Leave a Reply

Subscribe to Posts | Subscribe to Comments

- Copyright © Social Media Masti - Blogger Templates - Powered by Blogger - Designed by Johanes Djogan -