Posted by : Social media masti
Friday, October 26, 2018
کسی نے کیا خوب کہاتھا, اسپتال,پولیس تھانے اور کورٹ سے,خدا دشمن کو بھی بچائے, لیکن حقیقت دیکھئے, دشمن کو دعا دینے والا وہ انسان خود اپنے دشمن کو ان تین جگہوں تک لے آتا ہے, آج کورٹ روم میں ایک مقدمہ آخری مرحلے میں تھا, وہی عام سا بدنام سا مقدمہ جسکے بارے میں سن کر شرم تو آتی ہے لیکن کرتے ہوئے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی, اسے عرفِ عام میں ریپ کہتے ہیں, عجیب ذہنیت ہے, ریپ کرنے والے کے لئے سزائے موت کا مطالبہ کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی بہانے بہانے سے خود بھی وہی کر گزرتے ہیں, ایک بےحیا "ماڈرن لڑکی سے ریپ" کا مقدمہ چل رہا تھا جس نے اس وقت بھی کورٹ میں تنگ جینس اور چست ٹاپ لباس زیب تن کیا ہوا تھا, مقدمے کی سماعت کے بعد جج نے کنکلوزن کی بات کی تو ملزم کے وکیل نے کہا "جج صاحب اب میں اس کیس پر کچھ اور کہنا نہیں چاہتا, میں بس ایک بحث چھیڑنا چاہتا ہوں, بحث یہ کے آخر یہ اتنے ریپ ہو کیوں رہے ہیں, میرا مشاہدہ اور میرا تجربہ کہتا ہے جج صاحب یہ اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کی سزا ہے جو عورتوں کو ریپ کی شکل میں مل رہی ہے, میری ملت کی بیٹیوں کی عزت داؤ پر لگی ہے جج صاحب اور اسے داؤ پر لگانے والی خود میری ملت کی بیٹیاں ہیں" وکیل نے مظلومہ لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "غور سے دیکھئے میری ملت کی اس بیٹی کو جو اس وقت بھی بےہودہ لباس میں ملبوس بےحیائی کا مجسمہ بنی بیٹھی ہے, میری ملت کی اس بیٹی کے اس لباس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے اسے خود اپنی عزت کی کوئی فکر نہیں ہے, شاید یہ بھول گئی کے ایسے چست و تنگ لباس نہ صرف بےحیائی ہے بلکہ اللہ اور رسول سے بغاوت و نافرمانی بھی ہے اور اسی بات کی سزا ہے جو آج میری ملت کی بیٹیاں ریپ کی شکل میں بھگت رہی ہیں, جب تک وہ بےحیائی ترک نہیں کریں گی انہں اس سزا سے خود خدا بھی نجات نہیں دلا سکتا" وکیل کی خاموشی کے ساتھ ہی تالیوں کا ایک شور گونج اٹھا, اب باری تھی مظلومہ کے وکیل کی, لیکن وہ کہتا بھی تو کیا کہتا, ملزم کے وکیل نے جو بھی کہا تھا صحیح کہا تھا, اللہ اور رسول کی ضد میں اب وہ کیا دلیل پیش کرسکتا تھا, اسکی ہمت جواب دے چکی تھی, وہ اٹھ نہیں پارہا تھا, بوجھل کندھوں کو حرکت دیتے ہوئے جب اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو کسی نے اسکے کندھوں کو پیچھے سے دبوچ کر اسے بٹھادیا, یہ کوئی اور نہیں وہی مظلوم لڑکی تھی, اس نے کہا "بیٹھ جائیے وکیل صاحب بیٹھ جائیے, اب آپ سے نہیں لڑا جائےگا, کیونکہ آپ ہار مان چکے ہیں, اب یہ لڑائی میں خود لڑوں گی" اس نے آگے بڑھتے ہوئے جج سے اجازت مانگی تو جج نے اجازت دی, اس نے پہلے تو کورٹ میں موجود تماشائیوں پر ایک نظر ڈالی جو اسے نفرت اور طنز بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے, پھر اس نے ملزم کے وکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا " جج صاحب میں ملزم کے وکیل کی شکر گزار ہوں کے انہوں نے کم سے کم مجھے ملت کی بیٹی تو سمجھا, ورنہ تو لوگ عورت کو ایک لاوارث میراث سمجھ کر اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں, اس پر اپنی مردانگی کا ناجائز حق آزماتے ہیں, شکریہ وکیل صاحب, بہت بہت شکریہ, آپ کی اس ہمت افزائی سے میری خود اعتمادی کو یک گونہ قوت ملی ہے اور اسی قوت کے ساتھ یہاں موجود ہر شخص سے میں سوال کرنا چاہتی ہوں" اس نے کورٹ میں موجود لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا "اگر آپ کی بیٹی آپ کے سامنے آجائے تو آپ کی آنکھوں میں کیا ابھرےگا, اپنی بیٹی کے لئے پیار یا ایک لڑکی کے لئے ہوس, اگر آپ کی بیٹی آپ سے بات کرے اور آپ سے مدد چاہے تو آپ کیا دیکھیں گے, گزارش کرتی ہوئی اسکی آنکھیں یا دل و دماغ بہکانے والے اسکے ہونٹ, اگر آپ کی بیٹی آپ سے لپٹ کر روتی ہے توآپ کیا کریں گے, اسے سہارا دیں گے یا اسکا فائدہ اٹھائیں گے, اگر آپ کی بیٹی بےحیاء لباس میں آپکے سامنے آجاتی ہے تو آپ کیا کریں گے, اپنی آنکھیں پھیر لیں گے یا ہوس کا جنون لئے اس پر ٹوٹ پڑیں گے" ابھی اسکی بات ختم بھی نہیں ہوئی تھی کے وکیل نے بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہا "محترمہ, ملت کی بیٹی اور حوّا کی بیٹی میں فرق ہوتا ہے اس فرق کو سمجھیں آپ" مظلومہ نے جھٹ سے کہا "جانتی ہوں وکیل صاحب اچھے سے جانتی ہوں, اپنی بیٹی اور دوسروں کی بیٹی میں بڑا فرق ہوتا ہے, میں تو بس ملت کے سوئے ہوئے ایمان کو جگانے کی کوشش کررہی تھی, کیونکہ دنیا کی ہر قوم کی طرح یہ قوم بھی غلطیوں کو سدھارنا نہیں غلطیوں کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے, لیکن میں ایسا ہونے نہیں دونگی, ملت کی بیٹی ہوں نا اسلئے اپنی قوم کے ایمان کو جگاکے رہوں گی, کیا کہا تھا وکیل صاحب آپ نے, ریپ بےحیائی اور اللہ اور رسول کی نافرمانی کی سزا ہے, اگر اللہ اور رسول نے عورت کو جسم چھپانے کا حکم دیا ہے تو مردوں کو بھی نظریں جھکانے کا حکم دیا ہے, اگر عورت کی بےحیائی کی سزا ریپ ہے تو مرد کی بےحیائی کی سزا یہ ہے کہ اسکی آنکھیں گرم سلاخوں سے پھوڑ دی جائیں" اس آخری جملے سے سارا کورٹ روم گونج اٹھا, مظلومہ نے وکیل سے کہا "آپکی نظر میں یہ سزا ناگوار چیز ہے نا وکیل صاحب لیکن اس سے بھی شدید ناگوار چیز ہوتی ہے یہ ریپ جسے اتنی آسانی سے انجام دیا جاتا ہے مانو بچوں کا کھیل ہو" وہ رو رہی تھی, اسکی آنکھیں درد, غصہ, مایوسی, نا امیدی, لاچاری, بےچارگی, شرمندگی, اور نہ جانے کن کن جذباتوں کا پرتو لئے اشک بار ہو رہیں تھیں, وہ لگاتار رو رہی تھی, بس روئے جا رہی تھی, اسکی ہچکی بندھ رہی تھی, اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا "میرا ریپ ہوا تو میری ماں صدمے سے مر گئی اور میرے بابا شرم سے مر گئے, میری بہن کسی کو منہ نہیں دکھا سکتی اور میرا بھائی سر نہیں اٹھا سکتا, گھر سے لے کر خاندان اور محلے سے لے کر پورا سماج ہم کو دھتکار رہا ہے, غلطی میری تھی سزا مجھے دیتے میرے بےگناہ گھر والوں کے ساتھ ظلم کیوں, انہوں نے میری تربیت ویسی ہی کی جیسا سماج ہے, غلط تربیت پر گھر والوں کو سزا مل سکتی ہے تو غلط سماج کے لئے قوم کو سزا کیوں نہیں, مانا کے مردوں کو رجھانے کے لئے عورت بےپردہ ہوتی ہے تو کیا اسکا یہ مطلب نکالا جائے گا کہ وہ ریپ کروانا چاہتی ہے, یہ کہاں کی نفسیات ہے, مانا کے بےپردگی عورت کا قصور ہے بلکہ جرم ہے گناہ ہے گناہِ عظیم ہے, تو کیا مردوں کو یہ حق مل جاتا ہے کے سزا کے نام پر ریپ کردیں, اور اگر مردوں کو ریپ کا حق ہے تو عورتوں کو بھی مردوں کی آنکھیں پھوڑنے کا حق ملنا چاہئے, کیونکہ انصاف پر عورت کا بھی برابر کا حق ہے, اگر مردوں کو اللہ اور رسول کی نافرمانی کی کوئی سزا نہیں ملتی تو کیوں عورتوں کو صرف اتنی بڑی سزا...؟؟؟
ایک سنسنی خیز سناٹے کے ساتھ مقدمہ کی سماعت مکمل ہوچکی تھی اب جج کے فیصلے کا انتظار تھا,ساری دلیلوں اور واقعات کے مد نظر آپکا ضمیر جو فیصلہ کرے گا وہی جج کا فیصلہ ہوگا, براہِ کرم اپنے فیصلے سے آگاہ کریں