ایک بادشاہ نے اپنی رعایا پر ظلم کرکے بہت سا را خزانہ جمع کر لیا اور اسے شہر سے باہر ایک جنگل میں خفیہ غار میں چھپا دیا۔غار کے دروازے کی دو چابیاں تھیں ۔ایک بادشاہ کے پاس اور دوسرے اس کے وزیر کے پاس تھی ۔
ان دو کے علاوہ کسی کو بھی اس غار کا پتا نہیں تھا۔ایک دن صبح کے وقت بادشاہ خزانہ دیکھنے کے لیے غار کی طرف گیا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا ۔
خزانہ کمروں میں چاول اور گندم کے اَنبار کی طرح بکھرا پڑا تھا ۔ہیرے اور جواہرات الماری میں سجے ہوئے تھے۔
بادشاہ اس خزانے کو دیکھ کر بہت خوش ہوا،لیکن آتے وقت بادشاہ غار کا دروازہ ہی بند کرنا بھول گیا تھا۔اسی وقت وزیر کا اس غار کی طرف سے گزر ہوا ۔وزیر نے جب خزانے کا دروازہ کھلا دیکھا تو حیران رہ گیا ۔
وہ سمجھا کہ غلطی سے دروازہ کھلا رہ گیا ہے ۔
وہ سمجھا کہ غلطی سے دروازہ کھلا رہ گیا ہے ۔اسی خیال کے تحت اس نے دروازہ باہر سے بند کر دیا اور محل پہنچ کر یہ بات بھول گیا۔
جب بادشاہ ہیرے اور جواہرات کا معائنہ کرنے سے فارغ ہوا تو واپسی کا سوچا، لیکن جب وہ دروازے کی طرف پہنچا تو دیکھا کہ وہ تو بند تھا۔
بادشاہ نے دروازے کو خوب زور زور سے پیٹنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ چِلاّ تا بھی رہا ،لیکن اس ویران جنگل میں اس کی آواز سننے والا کوئی نہ تھا۔
وہ واپس اپنے خزانے کی طرف گیا اور ان سے دل بہلانے کی کوشش کرنے لگا ،لیکن بھوک اور پیاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ پھر دروازے کی طرف گیا،اس نے چینخنا چِلاّنا شروع کر دیا اور پھر تھک ہار کر وہ واپس جگہ پر آگیا ۔
بھوک اور پیاس کی شدت اتنی بڑھ گئی تھی کہ آخر وہ ہیروں سے بھیک مانگنے لگا:”اے قیمتی پتھر! مجھے ایک وقت کا کھانا دے دو۔“اسے ایسا لگا جیسے،وہ ہیرے اس کی سادگی پر زور زور سے ہنس رہے ہوں۔اس نے ایک ہیرا اُٹھا یا اور زور سے دیوار پر مارا،پھر موتیوں سے اپنی فریاد کرنے لگا:”اے قیمتی موتیوں ! مجھے ایک گلاس پانی دے دو۔
“اسے ایسا لگا کہ موتی اور جواہرات اس پر ہنس رہے ہوں ،بادشاہ کو بہت غصہ آیا ،لیکن بھوک غصے پر غالب آگئی۔
آخر بھوک کی شدت اتنی بڑھ گئی کہ وہ نڈھال ہونے لگا۔اس نے دنیا کو پیغام دینے کے لیے زمین پر کچھ لکھا ۔اس کے بعد بادشاہ کا انتقال ہو گیا۔